اسلام میں بے چینی اور ڈپریشن کا علاج

 معاشرے کی روزمرہ کی زندگی کے دباؤ آج کل مروجہ نفسیاتی عوارض، خاص طور پر بے چینی اور ڈپریشن کے پیچھے کلیدی حیثیت رکھتے ہیں۔  ان نفسیاتی مسائل کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ پر پختہ ایمانی یقین کو فروغ دے کر حل کیا ہے۔


 اللہ قرآن میں فرماتا ہے:


 .. وہ لوگ جو ایمان لائے اور جن کے دل اللہ کے ذکر سے سکون پاتے ہیں۔  بے شک اللہ کے ذکر سے دلوں کو سکون ملتا ہے۔  [قرآن 13:28]


 ایک مومن جو اپنے خالق کے ساتھ رابطے کے پل بڑھاتا ہے اس کے پاس یقینی طور پر متضاد دل اور پرسکون دماغ اور ضمیر ہوگا۔  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مومن کا معاملہ کتنا اچھا ہوتا ہے!  بے شک اس کے سارے معاملات اس کے لیے اچھے ہیں۔  یہ مومن کے سوا کسی کے لیے نہیں ہے۔  اگر اسے کچھ اچھا ہو جائے تو وہ اللہ کا شکر ادا کرتا ہے جو اس کے لیے اچھا ہے۔  اور اگر اسے کچھ برا ہو جائے تو اس نے صبر کیا جو اس کے لیے اچھا ہے۔"  [صحیح مسلم]


 پریشانی اور ڈپریشن خوف، غربت، بیماری یا ممکنہ آفات کے نتیجے میں ہو سکتا ہے۔  اس کے باوجود، ایک مومن، جو جانتا ہے کہ ہر چیز اللہ تعالی کی طرف سے پہلے سے طے شدہ ہے، صبر پر قائم رہے گا اور اسے پیش آنے والی کسی بھی پریشانی کے لیے الہی اجر حاصل کرے گا۔  اس طرح اس طرح کی پریشانیاں اور آفات اللہ تعالی کی طرف سے انعامات میں بدل جاتی ہیں جیسا کہ قرآن میں ہے:


 ہم یقیناً آپ کو خوف اور قحط اور املاک، جانوں اور فصلوں کے نقصان سے آزمائیں گے۔  ان لوگوں کو خوشخبری سنا دو جو صبر سے کام لیتے ہیں کہ جب کوئی مصیبت آتی ہے تو کہتے ہیں کہ بے شک ہم اللہ کے ہیں اور ہم سب اسی کی طرف لوٹنے والے ہیں۔  یہ وہ لوگ ہیں جن پر اللہ کی رحمتیں اور رحمتیں ہوں گی۔  اور وہی ہدایت یافتہ ہیں۔  [قرآن 2:155-157]


 قریب آنے والے خطرات اور نقصانات کے لیے بھی یہی بات درست ہے۔  ایک مومن کو اس طرح کی کوئی دھمکیاں اور نقصانات زیادہ اطمینان کے ساتھ ملیں گے، بحالی کی کوشش کی جائے گی۔  اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:


 جن لوگوں کو تنبیہ کی گئی تھی کہ ’’تمہارے دشمنوں نے تمھارے خلاف اپنی فوجیں جمع کر رکھی ہیں، لہٰذا ان سے ڈرو،‘‘ اس تنبیہ نے ان کے ایمان میں مزید پختگی پیدا کی اور انہوں نے جواب دیا، ’’ہمارے لیے صرف اللہ ہی کافی ہے اور وہی بہترین کارساز ہے۔  "  پس وہ اللہ کے فضل و کرم کے ساتھ واپس لوٹے اور کوئی نقصان نہ پہنچا۔  کیونکہ وہ اللہ کو راضی کرنا چاہتے تھے۔  اور بے شک اللہ لامحدود فضل کا مالک ہے۔  [قرآن 3:173-174]


خلیفہ اوّل کی سرکاری اہلکاروں کو نصیحت



حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کی قیادت میں ایک لشکر شام کی طرف بھیجنے کاارادہ فرمایا،جب وہ لشکر روانہ ہوا تو آپ ان کی سواری کے ساتھ ساتھ چل رہے تھے ،ان کو نصیحت فرماتے ہوئے کہہ رہے تھے۔

’’اے عمرو! ہر کام میں اللہ سے ڈرتے رہنا کوئی کام چاہے وہ خفیہ ہو یا اعلانیہ اس میں اللہ سے حیاء کرنا کیونکہ وہ تمہیںاور تمہارے تمام افعال کو دیکھ رہا ہے۔ تم دیکھ رہے ہومیںنے تمہیں (عسکری وجوہات کی بنا پر)امیر بنا کر ان لوگوں پر بھی مامور کردیا ہے جو تم سے زیادہ پرانے ہیں، اسلام میں تم سے سبقت بھی رکھتے ہیںاور تمہاری نسبت اسلام اورمسلمانوں کے لیے زیادہ مفید بھی ہیں۔تم آخرت کے لیے کام کرنے والے بنو اور تم جو کام بھی کرومحض اللہ رب العزت کی رضا حاصل کرنے کی نیت سے کرواور جو مسلمانوں تمہارے ساتھ جارہے ہیں تم ان کے ساتھ ایک باپ کی طرح شفقت کا معاملہ کرنا ،لوگوں کے اندر کی باتوں کو ہر گز افشاء کرنا بلکہ ان کے ظاہری اعمال پر اکتفاء کرلینا ،اپنے کام میں پوری محنت کرنا ،دشمن سے مقابلے کے وقت خوب جم کے لڑنااور بزدل نہ بننا(اگر مالِ غنیمت کے معاملے میں کسی قسم کی خیانت ہونے لگے تو اس )خیانت کو آگے بڑھ کر فوراً روک دینا اور اس پر تادیبی کاروائی کرنا۔جب تم اپنے ساتھیوں میں خطبہ دوتو اسے مختصر رکھنا ،اگر تم اپنے آپ کو ٹھیک رکھو گے تو تمہارے سارے ماتحت تمہارے ساتھ ٹھیک چلیں گے‘‘۔(کنزالعمال)


قاسم بن محمد کہتے ہیں،حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے دو افراد کو قبیلہ قضاعہ کے صدقات وصول کرنے کے لیے مقرر کیا،انہیں رخصت کرنے کے لیے ان کے ساتھ باہر تک آئے اورانہیں یوں نصیحت فرمائی۔


’’ظاہر و باطن میں اللہ سے خوف زدہ رہنا کیونکہ جو اللہ سے ڈرے گا اللہ اس کے لیے ہر دشواری سے نکلنے کا راستہ ضرور بنادے گااور اس کو وہاں سے رزق دے گاجہاں سے روزی ملنے کا گمان بھی نہ ہوگااور جو اللہ سے ڈرے گا اللہ اسکی غلطیاں معاف فرمادیگا اور اسے اجر عظیم عطا کرے گا،اللہ کے بندے جن اعمال کی ایک دوسرے کو وصیت کرتے ہیں ان میں سب سے بہترین اللہ رب العزت کا خوف ہے۔تم اس وقت اللہ کے راستوںمیں سے ایک راستے پر ہو،تمہارے اس کام میں حق کی کسی بات پر چشم پوشی کرنے کی اورکسی کام میں کوتاہی کرنے کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔اور جس کام میں تمہارے دین کی بھلائی ہے اورتمہارے کام کی ہر طرح سے حفاظت بھی ہے اس کام سے غفلت برتنے کی بھی کوئی گنجائش نہیں ہے لہٰذا سست نہ پڑنا اورکسی قسم کی کوئی کوتاہی نہ کرنا


 khalifa awwal ki sarkari ehalkaron ko naseehat.


hazrat abubaker Seddiq razi Allah anho ne hazrat umro ban Aas razi Allah anho ki qayadat mein aik lashkar shaam ki taraf bhejnay kaarad_h farmaya, jab woh lashkar rawana sun-hwa to aap un ki sawari ke sath sath chal rahay thay, un ko naseehat farmatay hue keh rahay thay .


'' ae umro! har kaam mein Allah se dartay rehna koi kaam chahay woh khufia ho ya elania is mein Allah se Haya karna kyunkay woh tumhee aur tumahray tamam af-aal ko dekh raha hai. tum dekh rahay ho main ne tumhe ( askari wajohaat ki bana par ) Ameer bana kar un logon par bhi mamoor kardiya hai jo tum se ziyada puranay hain, islam mein tum se Sabqat bhi rakhtay benawar tumhari nisbat islam avrmslmanon ke liye ziyada mufeed bhi hain. tum akhirat ke liye kaam karne walay bano aur tum jo kaam bhi karo mahaz Allah rab ulizzat ki Raza haasil karne ki niyat se karo aur jo musalmanoon tumahray sath jarahay hain tum un ke sath aik baap ki terhan shafqat ka maamla karna, logon ke andar ki baton ko har gaz Afsha karna balkay un ke zahiri aamaal par eiktifa karlena, –apne kaam mein poori mehnat karna, dushman se muqablay ke waqt khoob jim ke larna aur buzdil nah ban-na ( agar mal-e ghanemat ke muamlay mein kisi qisam ki khayanat honay lagey to is ) khayanat ko agay barh kar foran rokkk dena aur is par tadeebi karwai karna. jab tum –apne sathiyon mein khutba do to usay mukhtasir rakhna, agar tum –apne aap ko theek rakho ge to tumahray saaray matehat tumahray sath theek chalein ge' '. 



Qasim ban Mohammad kehte hain, hazrat abubaker Seddiq razi Allah anho ne 2 afraad ko qabeela قضاعہ ke sadqat wusool karne ke liye muqarrar kya, inhen rukhsat karne ke liye un ke sath bahar tak aaye aur unhen yun naseehat farmai .


'' zahir o batin mein Allah se khauf zada rehna kyunkay jo Allah se daray ga Allah is ke liye har dushwari se niklny ka rasta zaroor banade ga aur is ko wahan se rizaq day ga jahan se rozi milnay ka gumaan bhi nah hogaavr jo Allah se daray ga Allah uski ghalatiyan maaf farma de ga aur usay ajar azeem ataa kere ga, Allah ke bande jin aamaal ki aik dosray ko wasiyat karte hain un mein sab se behtareen Allah rab ulizzat ka khauf hai. tum is waqt Allah ke raston mein  se aik rastay par ho, tumahray is kaam mein haq ki kisi baat par chasham poshi karne ki avrksi kaam mein kotahi karne ki koi gunjaish nahi hai. aur jis kaam mein tumahray deen ki bhalai hai aur tuhmare  kaam ki har terhan se hifazat bhi hai is kaam se ghaflat baratnay ki bhi koi gunjaish nahi hai lehaza sust nah parna avrksi qisam ki koi kotahi nah karna' '. 

Ahadees e mubarak


 

Masnoon Duain