hadees of the day


 

hadees of the day


 

hadees of the day


 

hadees of the day


 

hadees of the day


 

hadees of the day


 

hadees of the day


 

hadees of the day


 

hadees of the day


 

hadees of the day


 

hadees of the day


 

hadees of the day


 

hadees of the day


 

hadees of the day


 

رسول اللہﷺ کی مثالی شخصیت اور سیرت و کردار


رسول اللہﷺ کی مثالی شخصیت اور سیرت و کردار

شخصیت  کی مضبوطی سے مراد پائیداری، استقلال،گہرائی، استحکام اور استواری ہیں۔ جب بات شخصیت کی مضبوطی کے حوالے سے کی جاتی ہے تو اس سے انسانی کردار ، مزاج ، عادات اور انداز میں اچھی صفات پر کاربند رہنے کا استحکام، ہمت اورجرأت کو مراد لیا جاتاہے۔ جب بھی شخصیت کی مضبوطی کی بات کی جاتی ہے تو اس سے ہمیشہ سےمثبت کردار و اطوار ہی مراد لیے جاتے ہیں ۔جیسے جیسے وقت گزرتا جارہا ہے۔ جدید چیلنجز ہم میں سے ہر ایک، بلکہ پوری دنیا کے تمام تر افراد کو درپیش ہیں۔ 

ان چیلنجز سے کامیابی کے ساتھ بغیر کوئی غلط یا غیر شرعی کام کیے نکل جانا بالخصوص مسلمانوں کے لیے زیادہ حساس نوعیت کا معاملہ ہے۔کیوں کہ مسلمان عقیدۂ آخرت پر یقین رکھتا ہےاور آخرت میں اپنے کیے گئے اعمال کا حساب ہر ایک کو دینا ہے۔ تو انفرادی اور اجتماعی دونوں نوعیت کے چیلنجز، آزمائش، مشکلات ،انصاف کا نہ ملنا، پریشانیوں، تذبذب، راستوں کے بند نظر آنے، پیچھے کی طرف دھکیل دیے جانے جیسے معاملات یا پھر آپ کی محنت، ذہانت، میرٹ اور قابلیت کی ایسی نفی کہ سب نظر آنے کے باوجود منفی اورنامناسب رویّے و انداز کا سامنا ہو، یہ سب چیلنجز میں شامل ہیں۔ اس نوعیت کے تجربات سے ہم میں سے اکثریت کا سابقہ رہتا ہے۔ 

یہی وہ کیفیت ہے جس میں آپ کی اپنی ذات کو رنجیدگی،شکستہ دل،حوصلہ شکنی، غصّہ،غم، ذہنی الجھاؤ جیسے مسائل کا سامنا رہتا ہے۔ یہ بہت مشکل کیفیات ہوتی ہیں ۔ ان معاملات میں صبر کرنا، حالات کے بہاؤ کے ساتھ خود کو بہنے نہ دینا، اپنی محنت کو ترک نہ کرنا ، کسی بھی انسان کے لیے مشکل ترین ہوتا ہے اور ان حالات میں اپنی ذہنی صحت کو مسلّم رکھنا تلخی سے بھرپور امتحان ہوتا ہے۔ یہ امتحان آپ اکیلے ہی دیتے ہیں۔ اگلا اس کی سنگینی سے واقف نہیں ہوتا تو اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان حالات میں آگے کی جانب کس طرح بڑھا جائے ؟ وہ بھی اس انداز سے کہ بغیر کسی کو نقصان پہنچائے یا خود کو منفی ماحول کے اثرات سے بچاتے ہوئے؟ 

ان تمام مسائل سے بچنے کا سب سے بہترین ، آئیڈیل ، قابلِ عمل صورت اور حل یہی ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی ذاتِ اقدس کے ساتھ اپنے تعلق کو بہتر اور مضبوط بنانے کی کوشش کی جائے۔بہ حیثیت امتِ محمدیہﷺ،رسول اللہ ﷺ سے ہمارے تعلق کی نوعیت و حیثیت ثانوی درجوں میں مطلوب نہیں ،بلکہ بنیادی درجے پر مطلوب و مقصود ہے اور ایک مسلمان کے حصّے میں یہ درجہ اسی وقت آئے گا کہ جب وہ آپ ﷺکی سیرت پاک کا مطالعہ کرکے اس میں سے اپنے لیے نتائج اخذ کرے، اس پر عمل کرے۔ اس سے سبق حاصل کرے۔

اپنی روز مرّہ زندگی میں حضور اکرمﷺ کی سیرت طیبہ پر عمل کو یقینی بنائے۔ آپ کا زیادہ سے زیادہ ذکر کرے، جس کی بہترین صورت درود شریف پڑھنا ہے۔ کوئی بھی مسلمان اگر اپنے مسائل اور مشکلات کے اوقات میں سیرتِ رسول اللہ ﷺ کا مطالعہ کرے اور بعثت نبوی کے بعد آپ ﷺکے صادق و امین کے لقب کو اپنے ذہن میں رکھتے ہوئے قریشِ مکّہ کی مخالفت کو یاد کرے،ان کے مظالم کو اپنے ذہن میں رکھے، حالاں کہ مخالفت کرنے والے آپﷺ کے کردار کی صداقت اور آپﷺ کی امانت داری کی صفات سے مکمل واقف تھے۔

دوسری جانب طائف والوں کے رویّے کو بھی نظر میں رکھیے اور پھر سوچئے کہ رسول اللہ ﷺ کی شب و روز دعوت دین کی محنت ،خداداد صلاحیت اوراللہ کے رسولﷺ ہونے کے باوجود ابتدائے اسلام اور مکی زندگی میں سوائےچند کے ایمان لانے کے، باقیوں کی جانب سے آپﷺ کی مخالفت اور دعوت دین سے اعراض جیسے رویوں پرحضور ﷺ کی کیا کیفیات رہی ہوں گی؟ آپﷺ کے قلبِ مبارک پر کیا کیا گزری ہوگی؟کیا یہ سب آپﷺ کے لیے تکلیف دہ اور غم زدگی کا باعث نہیں ہوں گے؟ بالکل ہوں گے۔ کیوں کہ انسان جب مثبت ہو، پُرخلوص ہو، محنتی ہو،نیک نیت ہو اور اللہ کے دین کی خدمت کرنا چاہتا ہو، سوچ کا پاک باز بھی ہو، لیکن لوگوں کی طرف سے منفی اور دل برداشتہ رویّے سامنے آئیں تو آگے بڑھنے کی ہمت بھی اکثر اوقات جواب دے جاتی ہے۔کیوں کہ مستقل مزاجی کے ساتھ کسی بھی مقصد پر قائم رہنا اپنے آپ میں ایک بڑا چیلنج ہے۔ تو ایک اُمّتی ہونے کی حیثیت سے یہ دیکھا جائے کہ رسول اللہ ﷺ نے ان سب مشکلات کے باوجود اپنے آپ کو کیسے راہِ حق اور صراطِ مستقیم پر گامزن رکھا؟

وہ تھا آپ ﷺکا تعلق مع اللہ ، جس نے آپﷺ کو شخصیت کی وہ مضبوطی دی کہ قریشِ مکّہ کے بارہا مال اور سرداری کی پیشکش کے باوجود آپ ﷺاپنے نیک ارادوں سے کسی صورت پیچھے نہیں ہٹے اور نہ ہی آپﷺ نے ان پیشکشکوں کی جانب کسی قسم کے التفات کوظاہر کیا۔ بلکہ اپنی نظر اللہ کے دین کی اشاعت پر رکھی۔ جس سے ایک نکتہ یہ بھی سامنے آتا ہے کہ نیکی کے کام میں آزمائش آنا اٹل حقیقت ہے اور ان آزمائشوں کا مضبوطی سے سامنا کرتے ہوئے کامیاب ہوجانا رسول اللہ ﷺ کی سنّت ہے۔

آپ ﷺ نےاپنی امّت کے لیے اپنے آپ کو ایک استاد کی حیثیت سے بھی متعارف کروایا ہے ، استاد سے تعلق کی نوعیت ہمیشہ روحانی ہوتی ہےاور استاد کا روحانی فیض ہر شاگرد کے حصّے میں اسی قدر آتا ہے ،جتنا کہ ایک شاگرد کے دل میں استاد کا احترام ہو، مقام ہو ، عزّت ہو،مرتبہ ہو اور عقیدت ہو تو رسول اللہ ﷺ کے اُمّتی ہونے کی حیثیت سے ،اپنے مشکل وقت میں رسول اللہ ﷺ کے طرزِ عمل کو اختیار کرنا ہمارے لیے آپﷺ کی سیرت طیبہ کا ایک لائق تقلید نمونہ ہے۔ 

صبر کے ساتھ اپنے مقاصد کو خالص و نیک نیتی کے ساتھ اپنے پاک پروردگار پر نظر رکھتے ہوئے جاری رکھنا ہی ہمارے لیے ہماری مشکلات کو آسان بنانے کا نبوی نسخہ ہے۔ اس کے نتیجے میں اپنے مشکل معاملات میں کچھ عرصے بعد خود بہ خود آسانی محسوس ہوگی اور اُس آسانی کی کئی صورتیں ہو سکتی ہیں۔ یا تو وہ راستے آسان ہوجائیں گے، یانئے راستے نکل آئیں گے، یا وہ مشکلات و رکاوٹیں دور ہوجائیں گی، یا پھر لوگوں کے دل حق کی قبولیت کی طرف مائل ہوجائیں گے اور یا پھر حالات تو وہی رہیں گے ، لیکن آپ میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے سنّتِ رسول اللہ ﷺ کی پیروی کے نتیجے میں اس قدر شخصی مضبوطی آچکی ہوگی کہ ان منفی رویوں اور چیلنجز سے بھر پور مشکل حالات میں پانی کی طرح اپنا راستہ بنانا آپ کے لیے آسان ہوجائے گا اور یہ رسول اللہ ﷺ سے تعلق کا فیض ہے۔جو آپ کو شخصی مضبوطی عطا کرے گا۔

لہٰذا، رسول اللہ ﷺ کی سنّت کو ہر لمحے کے لیے اپنے لیے قابلِ عمل بنانا انسان کی اپنی شخصیت کو مضبوط بنانے کا نبوی نسخہ ہے۔اسی لیے سنّتِ رسول اللہ ﷺ پر عمل کیجیے۔ زندگی آسان بنایئےاور آپ ﷺ کے کردار کو ہمیشہ اپنے ذہن میں محفوظ رکھیے۔ روز کی بنیاد پر درود شریف پڑھنا اپنی زندگی کا لازمی حصّہ بنایئے۔


Prophet Muhammad (SAW) Stories Of The Prophets

 آج ہم ایک ایسی کہانی کے بارے میں تجزیہ کرنے جارہے ہیں جس کے بارے میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے انسانوں کو بتایا کہ ماضی میں ایک کوڑھی رہتا تھا ایک گنجا اور ایک نابینا ایک دن اللہ تعالیٰ نے ان کے عقیدے کو جانچنے کے لیے ایک فرشتہ بھیجا۔ کوڑھی سے کہا اور کہا کہ آپ سب سے زیادہ کیا پسند کریں گے اس نے سچی رنگت اور سچی چھید اور جلد اور اس چیز سے چھٹکارا بیان کیا جس کی وجہ سے انسان مجھے ناپاک دیکھتے ہیں تو فرشتے نے اس پر اپنا ہاتھ بڑھایا۔


اور اس کی ناپاکی اس سے غائب ہوگئی اور اس کی رنگت بالکل درست ہوگئی اب فرشتے نے کہا کہ آپ سب سے زیادہ کیا پسند کریں گے کہ اس نے اونٹوں کا ذکر کیا تو مجھے اس کے حمل کے دسویں مہینے میں ایک اونٹنی دی جاتی تھی، اس نے کہا کہ خدا آپ کو برکت دے اس کے بعد فرشتہ گنجے آدمی کے پاس آیا اور کہا کہ آپ سب سے زیادہ کیا پسند کریں گے آپ نے اچھے بال اور اس صورت حال سے چھٹکارا بیان کیا جس کی وجہ سے انسان مجھے ناپسند کرتے تھے پھر فرشتے نے اپنا ہاتھ اس کے حوالے کیا تو اس کا گنجا پن غائب ہو گیا۔

سر کے پورے بال حاصل کر لیے اب فرشتے نے اس سے کہا کہ تم کیا پسند کرو گے کہ وہ مویشی بتائے تو مجھے ایک بار ایک حاملہ گائے دی گئی اور اس نے کہا کہ اللہ آپ کو اس پر برکت دے تو فرشتہ اندھے کے پاس آیا اور کہا کہ کیا ہو گا؟ آپ کو سب سے زیادہ پسند ہے اس نے کہا کہ خدا میری تخیلاتی اور پرہیزگاری کو بھی ٹھیک کر دے تاکہ میں انسانوں کو دیکھ سکوں تو فرشتے نے انگلیوں پر ہاتھ پھیر دیا اور اللہ نے اس کی بینائی بحال کر دی اب فرشتے نے کہا اور آپ کیا چاہیں گے؟


کیا اس نے بھیڑیں بتائی ہیں تو کس نے حاملہ ہونے کا حکم دیا ہے پہلے دو جانوروں نے حکم دیا اور ایسا ہی کیا بعد میں آخر کار لڑکوں میں سے ایک نے ایک وادی میں کچھ اونٹوں کو پسند کیا [موسیقی] کئی سالوں کے بعد خدا نے ان کے عقیدے کو ایک بار پھر جانچنے کا عزم کیا۔ جب اس نے قدیم آدمی کے بھیس میں ایک فرشتہ بھیجا تو وہ فرشتہ چھپتے ہوئے کوڑھی کے پاس آیا اور کہا کہ میں اپنی سواری پر رسی بند ہونے پر ایک منفی آدمی ہوں، مگر اس کا سہارا لے کر۔


خدا اور تجھ سے بے نیاز دن میں تجھ سے سوال کرتا ہوں کہ جس نے آپ کو اونٹ کے لیے صحیح رنگت اور جلد اور مال دیا جس سے میں اسے اپنی سواری چھوڑنے کے لیے بھی لے جا سکوں لیکن اس آدمی نے کہا کہ میرے پاس بہت سے کام ہیں۔ فرشتے نے کہا کہ مجھے معلوم ہوتا ہے کہ کیا تم کوڑھی تو نہیں تھے کہ تم معاشرے کے ذریعے ناپاک غریبوں سے پرہیز کرتے ہو اور کیا اب اللہ تعالیٰ نے تمہیں رزق نہیں دیا اس نے کہا یقیناً مجھے یہ دولت ورثے میں ملی ہے کہ زمانہ کے بعد فرشتے نے کہا کہ تم جھوٹے ہو۔ خدا بھی کرے


تم جیسے ہو اور وہ آدمی اچانک بڑھ کر ایک کوڑھی بن کر ابھرا جیسا کہ وہ پہلے ہوا کرتا تھا پھر فرشتہ یہاں چھپے ہوئے پہلے گنجے آدمی کے پاس پہنچا اور اس سے اس طرح بات کی جیسے اس کے پاس سابقہ ​​کوڑھی اور پہلے گنجے آدمی تھے۔ مڈاس کو پہلے کوڑھی تھا اس لیے فرشتے نے کہا کہ تم جھوٹے ہو اور اللہ تمہیں ایسا بنائے جیسا کہ تم اس آدمی تھے غیر متوقع طور پر اس کے سارے بال جھڑ گئے میں ایک بار پھر گنجا ہو گیا پھر فرشتہ بھی اس سے پہلے کے اندھے آدمی کے پاس آیا اور کہا کہ میں ایک آدمی ہوں۔ سڑک پر منفی آدمی


آج میری سواری پر میری رسی کا خاتمہ بغیر کسی سرائے کے تاہم خدا اور آپ سے میں آپ سے سوال کرتا ہوں کہ جس نے آپ کی بصارت کو ایک بھیڑ کے لیے بحال کیا وہ مجھے میرے راستے میں جوڑ دے اس آدمی نے کہا کہ میں اندھا تھا لیکن خدا نے بحال کیا۔ میری بینائی کچھ لے لو جو تم پسند کرتے ہو اور چھوڑ دو گے جو تم خدا کی راہ میں گراؤ گے میں تمہیں کوئی پریشانی نہیں دوں گا تم آج کل جو کچھ بھی خدا کے لئے لے لو فرشتے نے کہا تھا کہ تمہارے لئے جو کچھ ہے اسے صرف خدا کی طرف سے جانچا جا رہا ہے۔


آپ سے راضی اور ناخوش ہونے کا مختلف کہنا یہ تھا کہ ایک بار فرشتہ غائب ہو گیا اللہ سبحانہ وتعالی کے پاس جو کچھ اس نے آپ کو دیا ہے اسے لینے کی طاقت ہے ہمیں اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیے اور اس کے پاس جو کچھ بھی ہے اس کا شکر ادا کرنا چاہیے۔ آپ نے ہمیں دولت سے نوازا۔

رمضان کا عشرہ مغفرت !

 


خوش قسمت ہیں وہ لوگ جو اس ماہ میں زیادہ سے زیادہ نیکیاں سمیٹ کر اللہ ربّ العزت کی رضا اور خوشنودی حاصل کرنے میں کامیاب و کامران ہورہے ہیں۔


قرآن مجید فرقان حمید میں ارشاد باری تعالیٰ ہے : اے ایمان والو! تم پر روزے فرض کئے گئے ہیں جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر فرض کئے گئے تھے تاکہ تم متقی بن جاؤ۔ (سورة البقرة183 ) خالق کائنات اللہ عزوجل نے روزوں کی فرضیت کا مقصد بتاتے ہوئے فرمایا تاکہ تم متقی بن جاؤ ۔ رمضان المبارک کے ”عشرہ مغفرت “ کا آغاز ہوچکا ہے ، جوکہ اپنے اندر پہلے سے زیادہ اجر و ثواب سموئے ہوئے ہے۔


رمضان المبارک وہ مہینہ ہے کہ جس میں نفل نماز کا ثواب فرض کے برابر اور فرض کا ثواب ستر گنا تک بڑھا دیا جاتا ہے۔ نہ جانے آئندہ سال اس ماہ مبارک کے ایام ہمیں نصیب ہوں یانہ ہوں، ہمیں ان ایام میں زیادہ سے زیادہ عبادت اور توبہ و استغفار کرنا چاہیے۔ خوش قسمت ہیں وہ لوگ جو اس ماہ میں زیادہ سے زیادہ نیکیاں سمیٹ کر اللہ ربّ العزت کی رضا اور خوشنودی حاصل کرنے میں کامیاب و کامران ہورہے ہیں۔


حضرت موسیٰ کلیم اللہ ، اللہ ربّ ذوالجلال سے ہم کلام ہوتے ، زمان و مکان اورراز و نیاز کی باتیں ہوتیں ۔ ایک دن حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اپنے خالق سے سوال کیا کہ اس وقت کائنات میں ، میں واحد بندہ ہوں جسے آپ سے بات کرنے کا شرف حاصل ہے۔ بتائیے یہ اعزاز کسی اور کو بھی نصیب ہو گا۔ خالق کائنات نے ارشاد فرمایا، اے موسیٰ ! اس دنیا میں ایک ایسی بھی امت آنے والی ہے جب میرے اور ان بندوں کے درمیان کوئی پردہ حائل نہیں ہو گا۔


حضرت موسیٰ علیہ السلام حیران ہوئے ، باری تعالیٰ ! وہ کیسے،اللہ تعالیٰ نے فرمایا ! یاد رکھ موسیٰ ! تیرے اور میرے درمیان کلام اور ملاقات کی صورت بے شمار پردے حائل ہیں جبکہ آمدہ امت کے ساتھ یہ معاملہ ہرگز نہیں ہو گا۔ اس پر موسیٰ علیہ السلام کی حیرت میں مزیداضافہ ہو گیا، انہوں نے عرض کیا ، کائنات کے مالک ! بتائیے وہ کون خوش نصیب ہوں گے۔


اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا وہ امت محمدی ہو گی، ان میں سے وہ لوگ جو ماہ رمضان کے ایام پا کر صرف میری رضا و خوشنودی کیلئے روزے رکھیں گے اورپھر وقت افطارنڈھال جسم ،خشک زبان اور منہ کی مہک کے ساتھ جو دعا مانگیں گے ، میں قبول کروں گا کیونکہ اس لمحے ان کے اور میرے درمیان کوئی پردہ ، کوئی فاصلہ نہ ہو گا“۔ روزے دار کے متعلق اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ روزہ خاص میرے لئے ہے ، اور میں ہی ( جس طرح چاہوں گا ) اس کا اجر و ثواب دوں گا۔


میرا بندہ میری رضا کے واسطے اپنی خواہش نفس اور اپنا کھانا پینا چھوڑ دیتا ہے ( پس میں خود ہی اپنی مرضی کے مطابق اس کی اس قربانی اور نفس کشی کا صلہ دوں گا )۔ روزہ دار کے لئے دو مسرتیں ہیں ایک افطار کے وقت اور دوسری اپنے مالک الملک کی بارگاہ میں حاضری اور شرف ملاقات کے وقت، اور روزہ دار کے منہ کی بو اللہ تعالیٰ کے نزدیک مشک کی خوشبو سے بھی بہتر ہے ، یعنی انسانوں کیلئے مشک کی خوشبو جتنی اچھی اور جتنی پیاری ہے اللہ تعالیٰ کے ہاں روزہ دار کے منہ کی بو اس سے بھی اچھی ہے، اور روزہ دنیا میں شیطان و نفس کے حملوں سے بچاؤ کیلئے اور آخرت میں آتش دوزخ سے حفاظت کیلئے ڈھال ہے۔


رمضان المبارک خیر وبرکت ، ہمدردی و اخوت کا مہینہ ہے، اس ماہ کی راتوں میں اللہ تعالیٰ کی جانب سے تین مرتبہ اعلان کیا جاتا ہے کہ کوئی ہے توبہ کرنے والا میں جس کی توبہ قبول کروں۔ کوئی ہے مانگنے والا مجھ سے تو میں اس کو دوں۔ کوئی ہے معافی مانگنے والا کہ اس کو معاف کردوں“۔


اگر کوئی مسلمان عشرہ مغفرت میں اپنے پچھلے تمام کبیرہ گناہوں سے سچے دل سے توبہ کرلے تو اس کے صغیرہ گناہ روزے کی برکت سے معاف فرمادیے جاتے ہیں اور وہ شخص گناہوں سے ایسا پاک ہوجاتا ہے جیسے اس کی ماں نے اسے ابھی جنم دیا ہو۔


بلاشبہ جس کسی کو اللہ تعالیٰ کی مغفرت مل گئی اسے سب کچھ مل گیا۔ حق تعالیٰ شانہ تو اپنے بندوں کو معاف کرنے کے بہانے ڈھونڈتے ہیں۔ جب کسی بندے سے کوئی گناہ سرزد ہوجائے تو اللہ تعالیٰ کی جانب سے اسے مہلت دی جاتی ہے کہ شاید اب بھی یہ معافی مانگ لے، شاید اب بھی یہ میری طرف رجوع کرلے۔حدیث مبارکہ ہے کہ جب بندہ کوئی گناہ کرتا ہے تو آسمان اللہ تعالیٰ سے عرض کرتا ہے”اے اللہ! تو مجھے اجازت دے کہ میں اس پر ٹوٹ پڑوں۔


“ زمین کہتی ہے”اے اللہ، تو مجھے اجازت دے کہ میں اسے اپنے اندر دھنسالوں۔“ اس موقع پر مالک الملک کا ارشاد ہوتا ہے”اگر یہ تمہاری مخلوق ہے اور تم اس کے خالق ہو تو تمہیں اجازت ہے۔ اور اگر یہ میرے بندے ہیں اور میں ان کا خالق ہوں تو میرے بندے کا معاملہ مجھ پر چھوڑ دو، میں اس بات کا انتظار کروں گا کہ یہ مجھ سے رجوع کرلے اور اپنے گناہوں کی معافی مانگ لے“۔

حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ”روزے اور قرآن دونوں بندے کے لیے شفاعت (سفارش) کریں گے۔ روزے عرض کریں گے ” اے پروردگار! میں نے اس بندے کو کھانے پینے اور نفس کی خواہش پورا کرنے سے روکے رکھا تھا، آج میری سفارش اس کے حق میں قبول فرما، اور قرآن کہے گا کہ ” میں نے اس بندے کو رات کو سونے اور آرام کرنے سے روکے رکھا تھا، آج اس کے حق میں میری سفارش قبول فرما، چنانچہ روزہ اور قرآن دونوں کی سفارش بندے کے حق میں قبول فرمائی جائے گی“ ( مشکوٰة)۔


حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ”تین آدمیوں کی دعا رد نہیں ہوتی، ایک روزہ دار کی افطار کے وقت، دوسرے عادل بادشاہ کی اور تیسری مظلوم کی “۔


حضرت سہل بن سعد ساعدی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان عظیم ہے کہ” جنت کے دروازوں میں ایک خاص دروازہ ہے جس کو ”باب الریان“ کہا جاتا ہے۔


اس دروازے سے قیامت کے دن صرف روزہ داروں کا داخلہ ہو گا، ان کے سوا کوئی اس دروازے سے داخل نہیں ہو سکے گا۔ اس دن پکارا جائے گا کہ کدھر ہیں وہ بندے جو اللہ کیلئے روزے رکھا کرتے تھے اور بھوک پیاس کی تکلیف اٹھایا کرتے تھے؟ وہ اس پکار پر چل پڑیں گے،جب وہ روزہ دار اس دروازے سے جنت میں پہنچ جائیں گے تو یہ دروازہ بند کر دیا جائے گا، پھر کسی کا اس سے داخلہ نہیں ہو سکے گا۔


“ ریان کے لغوی معنی ہیں ”پورا پورا سیراب“ یہ بھرپور سیرابی تو اس روزہ دار کی صفت ہے جس سے روزہ داروں کا داخلہ ہو گا۔آگے جنت میں پہنچ کر جو کچھ اللہ تعالیٰ کے انعامات ان پر ہوں گے ان کا علم تو بس اللہ تعالیٰ ہی کو ہے۔ اس مبارک ماہ کی ان تمام فضیلتوں کو دیکھتے ہوئے مسلمانوں کو اس مہینہ میں عبادت کا خاص اہتمام کرنا چاہیے اور کوئی لمحہ ضائع اور بے کار نہیں جانے دینا چاہیے۔ ہم اپنے تمام صغیرہ و کبیرہ گناہوں سے معافی مانگ کر اللہ تعالیٰ کے حضور پاک و صاف پیش ہوسکتے ہیں۔ اللہ پاک ہم سب کو اپنے نفس کا تزکیہ کرکے تقویٰ اختیار کرنے کی توفیق عطاء فرمائے، آمین ۔

Masnoon Duain