"In the name of Allah, the Most Kind, the Most Merciful" Ahadees e mubark,islamic articles,islamic wallpapers hd,islamic aqwal,Life of sahaba ikram and aqwalin urdu/english.
رسول اللہﷺ کی مثالی شخصیت اور سیرت و کردار
Prophet Muhammad (SAW) Stories Of The Prophets
آج ہم ایک ایسی کہانی کے بارے میں تجزیہ کرنے جارہے ہیں جس کے بارے میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے انسانوں کو بتایا کہ ماضی میں ایک کوڑھی رہتا تھا ایک گنجا اور ایک نابینا ایک دن اللہ تعالیٰ نے ان کے عقیدے کو جانچنے کے لیے ایک فرشتہ بھیجا۔ کوڑھی سے کہا اور کہا کہ آپ سب سے زیادہ کیا پسند کریں گے اس نے سچی رنگت اور سچی چھید اور جلد اور اس چیز سے چھٹکارا بیان کیا جس کی وجہ سے انسان مجھے ناپاک دیکھتے ہیں تو فرشتے نے اس پر اپنا ہاتھ بڑھایا۔
اور اس کی ناپاکی اس سے غائب ہوگئی اور اس کی رنگت بالکل درست ہوگئی اب فرشتے نے کہا کہ آپ سب سے زیادہ کیا پسند کریں گے کہ اس نے اونٹوں کا ذکر کیا تو مجھے اس کے حمل کے دسویں مہینے میں ایک اونٹنی دی جاتی تھی، اس نے کہا کہ خدا آپ کو برکت دے اس کے بعد فرشتہ گنجے آدمی کے پاس آیا اور کہا کہ آپ سب سے زیادہ کیا پسند کریں گے آپ نے اچھے بال اور اس صورت حال سے چھٹکارا بیان کیا جس کی وجہ سے انسان مجھے ناپسند کرتے تھے پھر فرشتے نے اپنا ہاتھ اس کے حوالے کیا تو اس کا گنجا پن غائب ہو گیا۔
سر کے پورے بال حاصل کر لیے اب فرشتے نے اس سے کہا کہ تم کیا پسند کرو گے کہ وہ مویشی بتائے تو مجھے ایک بار ایک حاملہ گائے دی گئی اور اس نے کہا کہ اللہ آپ کو اس پر برکت دے تو فرشتہ اندھے کے پاس آیا اور کہا کہ کیا ہو گا؟ آپ کو سب سے زیادہ پسند ہے اس نے کہا کہ خدا میری تخیلاتی اور پرہیزگاری کو بھی ٹھیک کر دے تاکہ میں انسانوں کو دیکھ سکوں تو فرشتے نے انگلیوں پر ہاتھ پھیر دیا اور اللہ نے اس کی بینائی بحال کر دی اب فرشتے نے کہا اور آپ کیا چاہیں گے؟
کیا اس نے بھیڑیں بتائی ہیں تو کس نے حاملہ ہونے کا حکم دیا ہے پہلے دو جانوروں نے حکم دیا اور ایسا ہی کیا بعد میں آخر کار لڑکوں میں سے ایک نے ایک وادی میں کچھ اونٹوں کو پسند کیا [موسیقی] کئی سالوں کے بعد خدا نے ان کے عقیدے کو ایک بار پھر جانچنے کا عزم کیا۔ جب اس نے قدیم آدمی کے بھیس میں ایک فرشتہ بھیجا تو وہ فرشتہ چھپتے ہوئے کوڑھی کے پاس آیا اور کہا کہ میں اپنی سواری پر رسی بند ہونے پر ایک منفی آدمی ہوں، مگر اس کا سہارا لے کر۔
خدا اور تجھ سے بے نیاز دن میں تجھ سے سوال کرتا ہوں کہ جس نے آپ کو اونٹ کے لیے صحیح رنگت اور جلد اور مال دیا جس سے میں اسے اپنی سواری چھوڑنے کے لیے بھی لے جا سکوں لیکن اس آدمی نے کہا کہ میرے پاس بہت سے کام ہیں۔ فرشتے نے کہا کہ مجھے معلوم ہوتا ہے کہ کیا تم کوڑھی تو نہیں تھے کہ تم معاشرے کے ذریعے ناپاک غریبوں سے پرہیز کرتے ہو اور کیا اب اللہ تعالیٰ نے تمہیں رزق نہیں دیا اس نے کہا یقیناً مجھے یہ دولت ورثے میں ملی ہے کہ زمانہ کے بعد فرشتے نے کہا کہ تم جھوٹے ہو۔ خدا بھی کرے
تم جیسے ہو اور وہ آدمی اچانک بڑھ کر ایک کوڑھی بن کر ابھرا جیسا کہ وہ پہلے ہوا کرتا تھا پھر فرشتہ یہاں چھپے ہوئے پہلے گنجے آدمی کے پاس پہنچا اور اس سے اس طرح بات کی جیسے اس کے پاس سابقہ کوڑھی اور پہلے گنجے آدمی تھے۔ مڈاس کو پہلے کوڑھی تھا اس لیے فرشتے نے کہا کہ تم جھوٹے ہو اور اللہ تمہیں ایسا بنائے جیسا کہ تم اس آدمی تھے غیر متوقع طور پر اس کے سارے بال جھڑ گئے میں ایک بار پھر گنجا ہو گیا پھر فرشتہ بھی اس سے پہلے کے اندھے آدمی کے پاس آیا اور کہا کہ میں ایک آدمی ہوں۔ سڑک پر منفی آدمی
آج میری سواری پر میری رسی کا خاتمہ بغیر کسی سرائے کے تاہم خدا اور آپ سے میں آپ سے سوال کرتا ہوں کہ جس نے آپ کی بصارت کو ایک بھیڑ کے لیے بحال کیا وہ مجھے میرے راستے میں جوڑ دے اس آدمی نے کہا کہ میں اندھا تھا لیکن خدا نے بحال کیا۔ میری بینائی کچھ لے لو جو تم پسند کرتے ہو اور چھوڑ دو گے جو تم خدا کی راہ میں گراؤ گے میں تمہیں کوئی پریشانی نہیں دوں گا تم آج کل جو کچھ بھی خدا کے لئے لے لو فرشتے نے کہا تھا کہ تمہارے لئے جو کچھ ہے اسے صرف خدا کی طرف سے جانچا جا رہا ہے۔
آپ سے راضی اور ناخوش ہونے کا مختلف کہنا یہ تھا کہ ایک بار فرشتہ غائب ہو گیا اللہ سبحانہ وتعالی کے پاس جو کچھ اس نے آپ کو دیا ہے اسے لینے کی طاقت ہے ہمیں اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیے اور اس کے پاس جو کچھ بھی ہے اس کا شکر ادا کرنا چاہیے۔ آپ نے ہمیں دولت سے نوازا۔
رمضان کا عشرہ مغفرت !
خوش قسمت ہیں وہ لوگ جو اس ماہ میں زیادہ سے زیادہ نیکیاں سمیٹ کر اللہ ربّ العزت کی رضا اور خوشنودی حاصل کرنے میں کامیاب و کامران ہورہے ہیں۔
قرآن مجید فرقان حمید میں ارشاد باری تعالیٰ ہے : اے ایمان والو! تم پر روزے فرض کئے گئے ہیں جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر فرض کئے گئے تھے تاکہ تم متقی بن جاؤ۔ (سورة البقرة183 ) خالق کائنات اللہ عزوجل نے روزوں کی فرضیت کا مقصد بتاتے ہوئے فرمایا تاکہ تم متقی بن جاؤ ۔ رمضان المبارک کے ”عشرہ مغفرت “ کا آغاز ہوچکا ہے ، جوکہ اپنے اندر پہلے سے زیادہ اجر و ثواب سموئے ہوئے ہے۔
رمضان المبارک وہ مہینہ ہے کہ جس میں نفل نماز کا ثواب فرض کے برابر اور فرض کا ثواب ستر گنا تک بڑھا دیا جاتا ہے۔ نہ جانے آئندہ سال اس ماہ مبارک کے ایام ہمیں نصیب ہوں یانہ ہوں، ہمیں ان ایام میں زیادہ سے زیادہ عبادت اور توبہ و استغفار کرنا چاہیے۔ خوش قسمت ہیں وہ لوگ جو اس ماہ میں زیادہ سے زیادہ نیکیاں سمیٹ کر اللہ ربّ العزت کی رضا اور خوشنودی حاصل کرنے میں کامیاب و کامران ہورہے ہیں۔
حضرت موسیٰ کلیم اللہ ، اللہ ربّ ذوالجلال سے ہم کلام ہوتے ، زمان و مکان اورراز و نیاز کی باتیں ہوتیں ۔ ایک دن حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اپنے خالق سے سوال کیا کہ اس وقت کائنات میں ، میں واحد بندہ ہوں جسے آپ سے بات کرنے کا شرف حاصل ہے۔ بتائیے یہ اعزاز کسی اور کو بھی نصیب ہو گا۔ خالق کائنات نے ارشاد فرمایا، اے موسیٰ ! اس دنیا میں ایک ایسی بھی امت آنے والی ہے جب میرے اور ان بندوں کے درمیان کوئی پردہ حائل نہیں ہو گا۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام حیران ہوئے ، باری تعالیٰ ! وہ کیسے،اللہ تعالیٰ نے فرمایا ! یاد رکھ موسیٰ ! تیرے اور میرے درمیان کلام اور ملاقات کی صورت بے شمار پردے حائل ہیں جبکہ آمدہ امت کے ساتھ یہ معاملہ ہرگز نہیں ہو گا۔ اس پر موسیٰ علیہ السلام کی حیرت میں مزیداضافہ ہو گیا، انہوں نے عرض کیا ، کائنات کے مالک ! بتائیے وہ کون خوش نصیب ہوں گے۔
اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا وہ امت محمدی ہو گی، ان میں سے وہ لوگ جو ماہ رمضان کے ایام پا کر صرف میری رضا و خوشنودی کیلئے روزے رکھیں گے اورپھر وقت افطارنڈھال جسم ،خشک زبان اور منہ کی مہک کے ساتھ جو دعا مانگیں گے ، میں قبول کروں گا کیونکہ اس لمحے ان کے اور میرے درمیان کوئی پردہ ، کوئی فاصلہ نہ ہو گا“۔ روزے دار کے متعلق اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ روزہ خاص میرے لئے ہے ، اور میں ہی ( جس طرح چاہوں گا ) اس کا اجر و ثواب دوں گا۔
میرا بندہ میری رضا کے واسطے اپنی خواہش نفس اور اپنا کھانا پینا چھوڑ دیتا ہے ( پس میں خود ہی اپنی مرضی کے مطابق اس کی اس قربانی اور نفس کشی کا صلہ دوں گا )۔ روزہ دار کے لئے دو مسرتیں ہیں ایک افطار کے وقت اور دوسری اپنے مالک الملک کی بارگاہ میں حاضری اور شرف ملاقات کے وقت، اور روزہ دار کے منہ کی بو اللہ تعالیٰ کے نزدیک مشک کی خوشبو سے بھی بہتر ہے ، یعنی انسانوں کیلئے مشک کی خوشبو جتنی اچھی اور جتنی پیاری ہے اللہ تعالیٰ کے ہاں روزہ دار کے منہ کی بو اس سے بھی اچھی ہے، اور روزہ دنیا میں شیطان و نفس کے حملوں سے بچاؤ کیلئے اور آخرت میں آتش دوزخ سے حفاظت کیلئے ڈھال ہے۔
رمضان المبارک خیر وبرکت ، ہمدردی و اخوت کا مہینہ ہے، اس ماہ کی راتوں میں اللہ تعالیٰ کی جانب سے تین مرتبہ اعلان کیا جاتا ہے کہ کوئی ہے توبہ کرنے والا میں جس کی توبہ قبول کروں۔ کوئی ہے مانگنے والا مجھ سے تو میں اس کو دوں۔ کوئی ہے معافی مانگنے والا کہ اس کو معاف کردوں“۔
اگر کوئی مسلمان عشرہ مغفرت میں اپنے پچھلے تمام کبیرہ گناہوں سے سچے دل سے توبہ کرلے تو اس کے صغیرہ گناہ روزے کی برکت سے معاف فرمادیے جاتے ہیں اور وہ شخص گناہوں سے ایسا پاک ہوجاتا ہے جیسے اس کی ماں نے اسے ابھی جنم دیا ہو۔
بلاشبہ جس کسی کو اللہ تعالیٰ کی مغفرت مل گئی اسے سب کچھ مل گیا۔ حق تعالیٰ شانہ تو اپنے بندوں کو معاف کرنے کے بہانے ڈھونڈتے ہیں۔ جب کسی بندے سے کوئی گناہ سرزد ہوجائے تو اللہ تعالیٰ کی جانب سے اسے مہلت دی جاتی ہے کہ شاید اب بھی یہ معافی مانگ لے، شاید اب بھی یہ میری طرف رجوع کرلے۔حدیث مبارکہ ہے کہ جب بندہ کوئی گناہ کرتا ہے تو آسمان اللہ تعالیٰ سے عرض کرتا ہے”اے اللہ! تو مجھے اجازت دے کہ میں اس پر ٹوٹ پڑوں۔
“ زمین کہتی ہے”اے اللہ، تو مجھے اجازت دے کہ میں اسے اپنے اندر دھنسالوں۔“ اس موقع پر مالک الملک کا ارشاد ہوتا ہے”اگر یہ تمہاری مخلوق ہے اور تم اس کے خالق ہو تو تمہیں اجازت ہے۔ اور اگر یہ میرے بندے ہیں اور میں ان کا خالق ہوں تو میرے بندے کا معاملہ مجھ پر چھوڑ دو، میں اس بات کا انتظار کروں گا کہ یہ مجھ سے رجوع کرلے اور اپنے گناہوں کی معافی مانگ لے“۔
حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ”روزے اور قرآن دونوں بندے کے لیے شفاعت (سفارش) کریں گے۔ روزے عرض کریں گے ” اے پروردگار! میں نے اس بندے کو کھانے پینے اور نفس کی خواہش پورا کرنے سے روکے رکھا تھا، آج میری سفارش اس کے حق میں قبول فرما، اور قرآن کہے گا کہ ” میں نے اس بندے کو رات کو سونے اور آرام کرنے سے روکے رکھا تھا، آج اس کے حق میں میری سفارش قبول فرما، چنانچہ روزہ اور قرآن دونوں کی سفارش بندے کے حق میں قبول فرمائی جائے گی“ ( مشکوٰة)۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ”تین آدمیوں کی دعا رد نہیں ہوتی، ایک روزہ دار کی افطار کے وقت، دوسرے عادل بادشاہ کی اور تیسری مظلوم کی “۔
حضرت سہل بن سعد ساعدی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان عظیم ہے کہ” جنت کے دروازوں میں ایک خاص دروازہ ہے جس کو ”باب الریان“ کہا جاتا ہے۔
اس دروازے سے قیامت کے دن صرف روزہ داروں کا داخلہ ہو گا، ان کے سوا کوئی اس دروازے سے داخل نہیں ہو سکے گا۔ اس دن پکارا جائے گا کہ کدھر ہیں وہ بندے جو اللہ کیلئے روزے رکھا کرتے تھے اور بھوک پیاس کی تکلیف اٹھایا کرتے تھے؟ وہ اس پکار پر چل پڑیں گے،جب وہ روزہ دار اس دروازے سے جنت میں پہنچ جائیں گے تو یہ دروازہ بند کر دیا جائے گا، پھر کسی کا اس سے داخلہ نہیں ہو سکے گا۔
“ ریان کے لغوی معنی ہیں ”پورا پورا سیراب“ یہ بھرپور سیرابی تو اس روزہ دار کی صفت ہے جس سے روزہ داروں کا داخلہ ہو گا۔آگے جنت میں پہنچ کر جو کچھ اللہ تعالیٰ کے انعامات ان پر ہوں گے ان کا علم تو بس اللہ تعالیٰ ہی کو ہے۔ اس مبارک ماہ کی ان تمام فضیلتوں کو دیکھتے ہوئے مسلمانوں کو اس مہینہ میں عبادت کا خاص اہتمام کرنا چاہیے اور کوئی لمحہ ضائع اور بے کار نہیں جانے دینا چاہیے۔ ہم اپنے تمام صغیرہ و کبیرہ گناہوں سے معافی مانگ کر اللہ تعالیٰ کے حضور پاک و صاف پیش ہوسکتے ہیں۔ اللہ پاک ہم سب کو اپنے نفس کا تزکیہ کرکے تقویٰ اختیار کرنے کی توفیق عطاء فرمائے، آمین ۔