تکمیلِ دین اور عقیدہ ختم نبوت کی عظمت و اہمیتThe fulfillment of religion and the greatness and importance of the belief in the end of prophethood
تکمیلِ دین اور عقیدہ ختم نبوت کی عظمت و اہمیت
ارشاد باری تعالیٰ ہے:’’آج کے دن میں نے تمہارے لیے تمہارے دین کو کامل کردیا اور میں نے اپنی نعمت تم پر پوری کردی اور میں نے تمہارے لیے پسند کیا اسلام کوبطورِ دین‘‘۔ (سورۃ المائدہ:۳)اس آخری ہدایت کو اسلام سے تعبیر فرما کر اس کا بھی اعلان کردیا کہ اب قیامت تک اس دین اسلام کے سوا کوئی اور دین اللہ کے ہاں قابل قبول نہیں ، اور یہ کہ انسانی نجات کے لیے صرف یہی ایک راستہ متعین ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:’’اور جو شخص اسلام کے سوا کسی دوسرے دین کا خواہش مند ہوگا تو اس کا وہ دین ہر گز مقبول نہ ہوگا اور وہ شخص آخرت میں نقصان اٹھانے والوں میں ہوگا‘‘۔(سورۂ آل عمران:۸۵)
قرآن کریم نے نبی کریم ﷺ کی نبوت کی عمومیت کو مختلف انداز میں بیان فرمایا ہے ، چناں چہ سورۃ النساء میں ارشاد فرمایا:’’ اور اے محمدﷺ! ہم نے آپ کو تمام لوگوں کے لیے رسول بناکر بھیجا اور اس بات پر اللہ کی گواہی کافی ہے ‘‘۔ سورۂ سبا میں فرمایا:’’اور اے پیغمبر! ہم نے آپﷺ کو تمام لوگوں کے لیے بشارت دینے والا اور ڈرانے والا(دین کا پیغام پہنچانے والا) بنا کر بھیجا ہے ‘‘۔ سورۂ احزاب میں آپﷺ کے خاتم الانبیاء ہونے کا اعلان اس طرح فرمایا:’’ محمدﷺ تمہارے مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں،(یعنی نسب کے اعتبار سے) مگر ہاں وہ اللہ کے رسول اور خاتم النبیین ہیں اور اللہ ہر چیز کی مصلحت کو خوب جانتا ہے‘‘۔(سورۂ احزاب:۴۰)
ارشاد ہوا: جو چیز تم کو رسول دے ،اسے لے لو۔ اورجس چیز سے منع کرے اس سے باز آجاؤ۔ارشاد ِ نبویؐ ہے:جس نے ہمارے اس معاملے (دین) میں کوئی نئی چیز گھڑی تو وہ مردود ہوگی۔(بخاری ومسلم) رسول اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: تم پر لازم ہے کہ میری اور میرے ہدایت یافتہ خلفائےراشدینؓ کی سنت پر عمل کرو۔(ترمذی، ج:۲، ص: ۹۲، ابوداؤد، ج۲، ص: ۲۷۹)
اللہ رب العزت کا ان گنت اور بے شمار مرتبہ شکر ہے کہ اس نے ہمیں اشرف المخلوقات بنایا، اور یہ بھی اس کا بے پایاں اور عظیم احسان اور انعام ہے کہ اس نے ہمیں ایمان اور اسلام کی دولت سے مالا مال فرمایااور خداوندِ قدوس کا سب سے اعلیٰ اور عظیم احسان اور انعام یہ ہے کہ ہمیں افضل الانبیاء، امام المرسلین، خاتم النّبیین حضرت محمد رسول اللہﷺ کا امتی بناکر کُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّةٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ کا سہرا ہمارے سروں پر سجایا۔
دین کی تکمیل خاتم الانبیاء ﷺپر ہوئی،جو دینِ اسلام لے کر حضرت آدمؑآئے تھے، حضرت نوح ؑآئے تھے، حضرت ابراہیمؑ و اسماعیلؑ آئے تھے، حضرت موسیٰؑ و ہارونؑ آئے تھے، حضرت داؤدؑ و سلیمانؑ آئے تھے ، ہاں جو دین حضرت آدمؑ سے لے کر حضرت عیسیٰؑ تک تمام انبیاء کا متفقہ دین تھا، اس دین کی تکمیل حضرت محمد رسول اللہﷺ کی ذاتِ گرامی پر ہوئی۔
آنحضرت ﷺ نے اس دین کو مسلسل تیئس برس اپنے وجودِ مقدس کالہو بہاکر، طرح طرح کی تکلیفیں سہہ کر، ایذائیں برداشت کرکے، مصائب و مظالم کے پہاڑ اٹھاکر، لوگوں کے طعنے سن کر مخلوقِ خدا تک پہنچایا۔ پھر ۹ھ میں حجۃ الوداع کے موقع پر جب آپﷺ عرفات کے میدان میں ایک لاکھ سے زائد صحابۂ کرامؓ کے سامنے تاریخی خطبہ ارشاد فرمارہے تھے، کہ لوگو! مجھ سے دین حاصل کرلو! لوگو! میری باتیں غور سے سنو!’’لَعَلِّیْ لاَ اَرَاکُمْ بَعْدَ عَامِیْ ہٰذَا‘‘ ہوسکتا ہے میں آئندہ سال تمہیں نہ دیکھ سکوں۔
اس موقع پر اللہ ربّ العزت کی طرف سے اعلان ہوا۔آج میں نے تمہارا دین مکمل کردیا، اور اپنی نعمت تم پر پوری کردی، اسلام کو تمہارے لئے بطورِ دین پسند کیا۔ اس آیت کریمہ سے واضح ہوگیا کہ اسلام دین کامل اور جامع دین ہے۔ دینِ اسلام نے زندگی گزارنے کے جتنے گوشے ممکن ہوسکتے تھے، ان سب کے لئے کچھ اصول، کچھ قوانین، اور کچھ ضابطے بیان کرکے انسان کو دوسرے طور طریقوں سے بے نیاز کردیا۔ قرآن میں اصولِ دین کو پوری وضاحت سے بیان کیاگیا ہے اور نبی اکرم ﷺکو مبعوث فرماکر اعلان کیا: تمہارے لئے اللہ کے رسولﷺ کی زندگی میں بہترین نمونہ ہے۔
حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کی سیرت کا مطالعہ فرمائیے،احادیث و سیرت کی کتابوں میں آپ ﷺ کی سیرت طیبہ کا ایک ایک لحظہ محفوظ ہے اُمت کا ہر آدمی جو کام بھی کرنا چاہے، آنحضرت ﷺ کی ذاتِ گرامی میں اس کےلیے روشن نمونہ موجود ہے۔
شادی ہو یا غمی، صحت ہو یا بیماری، سفر ہویا حضر، جنگ ہو یاصلح، سسر ہو یاداماد، والدین ہوں یا اولاد، سربراہِ مملکت ہو یا مزدور، مسجد ہو یا بازار، عبادت ہو یاتجارت، نماز ہو، روزہ ہو، اذان ہو، تکبیر ہو، جنازہ ہو، حج ہو، قربانی ہو، عمرہ ہو، غرضیکہ زندگی کے نشیب و فراز میں اور زندگی کے ہر ہر موڑ پر آنحضرت ﷺکی ذاتِ اقدس ایک مسلمان کےلیے کامل نمونہ ہے۔
نبی کریم ﷺ نے خود بھی اپنے مبارک اقوال سے اپنی رسالت کی عمومیت اور ختم نبوت کو مختلف انداز میں امت کے سامنے واضح فرمایا ، آپﷺ نے اپنی رسالت کی عمومیت کو ان الفاظ میں بیان فرمایا :’’مجھے پانچ ایسی خصوصیات دی گئی ہیں جو مجھے سے پہلے کسی نبی کو نہیں دی گئیں۔: ۱۔ میری نصرت فرمائی گئی ہے رعب کے ذریعے جو کہ ایک مہینے کی مسافت سے دشمن پر پڑتا جاتا ہے ۔۲۔ میرے لیے زمین کو مسجد اور طہارت کا ذریعہ بنا دیا گیا ہے، لہٰذا میری امت کا کوئی شخص بھی ہو، جب نماز کا وقت آجائے تو اسے چاہیے کہ نماز پڑھ لے۔ ۳۔ اور میرے لیے مالِ غنیمت حلال کردیا گیا ہے جب کہ یہ مجھ سے پہلے کسی کے لیے حلال نہ تھا۔ ۴۔ اور مجھے شفاعت کبریٰ عطا کی گئی ہے ۔ ۵۔ اور مجھ سے پہلے ہر نبی اپنی خاص قوم کی طرف بھیجا جاتا تھا اور مجھے تمام انسانوں کی طرف نبی بنا کر بھیجا گیا ہے‘‘۔(صحیح بخاری، کتاب التیمم:۱؍۱۱۲، نمبر:۳۳۵)
آپ ﷺ نے اپنی ختم نبوت کی وضاحت فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا:’’ بے شک، رسالت اور نبوت منقطع ہوچکی ہے ، میرے بعد کوئی رسول نہ ہوگا اور نہ نبی‘‘۔(جامع الترمذی، ابواب الرؤیا :۲؍۵۰۰، نمبر:۲۲۳۲)پھر آپ ﷺ نے اس ہدایت کی تکمیل اور ختم نبوت کے مفہوم کو سمجھانے کے لیے ایک ایسی حسی مثال بیان فرمائی جس کے سننے کے بعد ایک معمولی سمجھ رکھنے والے مسلمان کو بھی کوئی شک و شبہ باقی نہیں رہتا، آپﷺ نے فرمایا:’’ میری اور مجھ سے پہلے انبیاءؑ کی مثال ایسی ہے کہ ایک شخص نے نہایت حسین و جمیل محل تعمیر کیا، مگر اس کے ایک کونے میں ایک اینٹ کی جگہ خالی تھی، لوگ اس کے گرد چکر لگاتے اور اس (کی خوبی تعمیر) پر تعجب کرتے اور لوگ بطور تعجب کہتے ، یہ اینٹ کیوں نہ لگا دی گئی کہ (محل بہمہ وجوہ کامل و مکمل ہوجاتا) فرمایا: پس میں (قصر نبوت کی) وہی (آخری) اینٹ ہوں اور خاتم النبیین ہوں کہ (میری آمد) سے انبیائے کرام ؑکی تعداد پوری ہوگئی‘‘۔(صحیح بخاری، کتاب المناقب، باب خاتم النبیین:۱؍۲۶۷، نمبر:۳۵۳۴)
امتِ اسلامیہ کا یوم اوّل سے آج تک اجماعی عقیدہ ہے کہ حضرت محمد ﷺ خاتم الانبیاء ہیں، آپ ﷺکے بعد اب قیامت تک کوئی نبی اور رسول نہیں ہوگا اورآپ کی لائی ہوئی ہدایت ’’دینِ اسلام‘‘ آخری ہدایت ہے اور اسی پر انسانیت کی کامیابی کا مدار ہے۔
یہی وجہ ہے کہ آپ ﷺ کے عہد مبارک میں یا آپ ﷺکے بعد جب بھی کسی شخص نے نبوت کا دعویٰ کیا امت نے اسے جھوٹا قرار دیا اور اس کے خلاف اعلانِ جنگ کیا۔ جیسے مسیلمہ کذاب اوراسود عنسی وغیرہ۔اللہ تعالیٰ ہمیں اور پوری امتِ اسلامیہ کو آپ ﷺ کی ختم نبوت کے عقیدے پر قائم رہنے اور اس کی حفاظت کی توفیق عطا فرمائے۔(آمین)
Comments
Post a Comment