عقیدہ ختمِ نبوت پر ایمان اور اُس کے تقاضےBelief in the end of prophethood and its requirements


Belief in the end of prophethood and its requirements

عقیدہ ختمِ نبوت پر ایمان اور اُس کے تقاضے


امام الانبیاء، سیدالمرسلین، خاتم النبیین، پیغمبرِ آخرواعظم، ہادیِ عالم حضرت محمد مصطفیٰ، احمد مجتبیٰ ﷺ کو تاج دارِ ختم نبوت اور آخری نبی بنا کر مبعوث فرمایا گیا۔ آپﷺ کے بعد نبوت و رسالت کا دروازہ ہمیشہ کے لیے بند ہو گیا۔ 


آپﷺ اللہ کے آخری نبی اور قیامت تک پوری انسانیت کے ہادی و رہبر ہیں۔ آپﷺ کو دینِ کامل عطا کیا گیا۔ اب دینِ اسلام ہمیشہ کے لیے مکمل ہو گیا۔ یہ ایک کامل و مکمل ضابطۂ حیات اور بنی نوع انسان کے لیے دائمی صحیفۂ ہدایت ہے، جس میں کسی ترمیم اور تبدیلی کی کوئی گنجائش نہیں۔


رسولِ اکرم ﷺ کی پیغمبرانہ خصوصیات میں سب سے اہم اور نمایاں خصوصیت آپﷺ کا امام الانبیاء، سیّد المرسلین اور خاتم النّبییّن ہونا ہے، آپﷺ کی دعوت، آپﷺ کی شریعت، آپ ﷺکا پیغام اور دینِ اسلام آفاقی اور عالمگیر حیثیت کا حامل ہے۔ 


آپﷺ بنی نوع آدم اور پورے عالم انس و جنّ کے لیے دائمی نمونۂ عمل اور آخری نبی بنا کر مبعوث فرمائے گئے۔ آپﷺ پر دینِ مُبین کی تکمیل کر دی گئی۔ پوری انسانیت آپﷺ کی امّت اور آپﷺ قیامت تک پوری انسانیت کے لیے ہادی و رہبر اور بشیر و نذیر بنا کر مبعوث فرمائے گئے۔


اس ابدی حقیقت کی وضاحت مندرجہ ذیل آیاتِ قرآنی میں بہ تمام و کمال کر دی گئی۔ ارشادِ ربّانی ہے:’’ اور ہم نے آپﷺ کو تمام انسانوں کے لیے خوش خبری سنانے والا اور آگاہ کرنے والا بنا کر بھیجا ہے۔(سُورۂ سبا؍ آیت 28)آپﷺ کی نبوّت و رسالت کی آفاقیت اور عالمگیریت کے حوالے سے ارشادِ ربّانی ہے:’’کہہ دیجیے، اے لوگو، میں تم سب لوگوں کی طرف اللہ کا پیغام دے کر بھیجا گیا ہوں۔‘‘ (سورۃ الاعراف؍ آیت 158) ایک اور مقام پر ارشاد ہوا: ’’برکت والا ہے وہ (اللہ) جس نے حق و باطل میں امتیاز کرنے والی کتاب اپنے بندے (محمدﷺ) پر نازل کی، تا کہ وہ دنیا جہاں کے لیے ہوشیار و آگاہ کرنے والا ہو۔‘‘ (سورۃ الفرقان؍ آیت 2,1)


ختمِ نبوّت اور تکمیل دینِ کے حوالے سے یہی مضمون رسولِ اکرم حضرت محمد ﷺ نے مختلف احادیث میں یوں بیان فرمایا ہے۔٭’’میں کالے اور گورے (مشرق و مغرب) تمام انسانوں کی طرف مبعوث کیا گیا ہوں۔ (احمد بن حنبل؍ المُسند)ایک موقع پر آپﷺ نے اپنی پیغمبرانہ خصوصیت کے حوالے سے ارشاد فرمایا:’’ میں (عمومیت کے ساتھ) تمام انسانوں کی طرف بھیجا گیا ہوں، حالاں کہ مجھ سے پہلے جو نبی مبعوث ہوئے، وہ خاص اپنی قوموں کی طرف بھیجے جاتے تھے۔‘‘ (حوالہ سابقہ)


رسالت اور نبوّت کی تاریخ پر نگاہ ڈالنے سے پتا چلتا ہے کہ انسانیت کی ہدایت و رہبری اور انہیں کفر و شرک کی ظلمتوں سے دور رکھنے کے لیے انبیائے کرامؑ ہمیشہ تشریف لاتے رہے، ان پر وحی بھی نازل ہوتی رہی، تا ہم حضور اکرم ﷺ سے پہلے جتنے انبیائے کرامؑ تشریف لائے، ان کی بعثت و رسالت کسی خاص عہد یا کسی خاص قوم کے لیے تھی، کسی نبی اور رسول کے مخاطب تمام انسان اور پوری دنیا کے لوگ نہیں تھے، رسولِ اکرم ﷺ کی بعثت اور تکمیلِ دین سے قبل نازل شدہ آسمانی کتب بھی مخصوص عہد کے لیے تھیں۔


تاہم رسولِ اکرم ﷺ کی بعثت کے بعد سلسلۂ نبوّت و رسالت ختمی مرتبت حضرت محمد ﷺ پر تمام اوصافِ کمال کے ساتھ ختم کر دیا گیا۔ اب ہدایت و راہ نمائی کا ابدی سرچشمہ قرآنِ کریم اللہ کی نازل کردہ آخری کتاب، رسولِ اکرم ﷺ آخری نبی اور آپﷺ کی عطا کردہ تعلیمات ، شریعتِ محمدیؐ قیامت تک انسانیت کی ہدایت و راہ نمائی کی ضامن، دین و دنیا میں فلاح اور آخرت میں نجات کی یقینی ضمانت ہیں۔


اب یہ حقیقت واضح ہو گئی کہ پیغمبر آخر و اعظم، سیّدِ عرب و عجم ،حضرت محمد ﷺ کو اللہ تعالیٰ نے آخری نبی بنا کر پوری انسانیت کی ہدایت و رہبری کے لیے دنیا میں بھیجا۔ آپﷺ کے بعد نہ کوئی نبی آئے گا، نہ کوئی نیا دین آئے گا، نہ کوئی شریعت آئے گی، نہ وحی نازل ہو گی اور نہ اللہ کا پیغام نازل ہو گا۔


دوسری جانب قرآنِ کریم سے جب ہم یہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ انبیائے کرامؑ کی بعثت کن حالات میں پیش آئی، اور وہ کیا تقاضے تھے، جن کے پیشِ نظر دنیا میں مختلف تاریخی ادوار اور اقوام میں انبیائے کرامؑ کو بھیجا گیا، تو واضح طور پر پتا چلتا ہے کہ صرف چار حالتیں ایسی ہیں، جن میں انبیائے کرامؑ کو مبعوث فرمایا گیا۔


(1): یہ کہ کسی خاص قوم میں نبی بھیجنے کی ضرورت اس لیے ہو کہ اس میں پہلے کبھی کوئی نبی نہ آیا ہو اور کسی دوسری قوم میں آئے ہوئے نبی کا پیغام بھی اس قوم تک نہ پہنچ سکا ہو۔(2): نبی بھیجنے کی ضرورت اس لیے پیش آئی کہ پہلے گزرے ہوئے نبی کی تعلیم قوم نے بھلا دی ہو یا اس میں تحریف کر دی ہو اوراب اس کی پیروی کرنا ناممکن ہو گیا ہو۔(3): پہلے گزرے ہوئے نبی کے ذریعے مکمل تعلیم و ہدایت لوگوں کو نہ ملی ہو اور تبلیغِ دین اور شریعت کی تشریح و تعبیر کے لیے مزید کسی نبی کی ضرورت ہو یا نبی کا پیغام اور شریعت نامکمل ہو۔(4): ایک نبی کے ساتھ ایک ہی عہد میں اس کی مدد کے لیے ایک اور نبی کی حاجت ہو۔ ظاہر ہے کہ مندرجہ بالا وجوہ میں سے کوئی ایک وجہ بھی نبی اکرم ﷺ کی بعثت، آپﷺ کی ختمِ نبوّت اور تکمیلِ دین و شریعت کے بعد اب باقی نہیں ہے۔


ختمِ نبوّت اور تکمیلِ دین رسالتِ محمدیؐ کا امتیاز اور بنیادی خصوصیات ہیں۔ اِس حقیقت کی ترجمانی کرتے ہُوئے علّامہ سیّد سلیمان ندویؒ کیا خُوب لکھتے ہیں: ’’یہ رُعب و نصرت، یہ پیروئوں کی کثرت، یہ سجدہ گاہیِ عام، یہ اعجازِ دوام، یہ جوامع الکلمی، یہ دعوتِ عمومی، یہ تکمیلِ دین، یہ آیاتِ مُبین اس امر کے واضح دلائل ہیں کہ آپﷺ کی ذاتِ اقدس پر تمام پیغمبرانہ نعمتوں کا خاتمہ ہوگیا اور نبوّت و رسالت کا سلسلہ منتہی ہوگیا، اب دنیا کسی نئے نبی اور نئے آنے والے وجود سے مستغنی ہوگئی۔ 


اسی لیے قرآنِ کریم نے عہدِ نبویؐ کے سب سے بڑے مجمعِ عام میں یہ اعلانِ عام کیا کہ:’’آج کے دن میں نے تمہارے لیے تمہارا دین کامل کردیا اور تم پر اپنی نعمت پوری کردی، اور اسلام کو دِین کی حیثیت سے میں نے تمہارے لیے پسند کیا۔‘‘ (سُورۃ المائدہ)یہ آیت جو 9 ذی الجّحہ 10 ھ کو نازل ہُوئی،اس بات کی بشارت تھی کہ نبوّت جس کا مقصد دین کی عمارت میں کسی نہ کسی اینٹ کا اضافہ تھا، وہ آج تکمیل کو پہنچ گئی۔‘‘ (سیرت النبیؐ، جِلد سوم)


’’ختمِ نبوّت‘‘ اسلام کا بنیادی عقیدہ ہے، یہ شریعتِ محمدیؐ کی اساس اور بنیاد ہے، رسالتِ محمدیؐ کا امتیاز اور آپﷺ کی نبوّت کی اہم اور نمایاں ترین خصوصیت ہے۔ قرآن و سنّت، تعاملِ اُمّت، صحابہؓ و تابعین اور پوری اُمّت کا اس امر پر اجماع ہے کہ رسولِ اکرم ﷺ کو ’’خاتم النّبیین‘‘ بناکر مبعوث فرمایا گیا، آپﷺ پر دین کی تکمیل کردی گئی۔ آپﷺ اللہ کے آخری نبی، قرآن ہدایت و راہ نُمائی کا آخری اور ابدی سرچشمہ اور یہ اُمّت آخری اُمّت ہے۔


قرآن و سنّت میں اس حوالے سے بے شُمار دلائل موجود ہیں۔ اُمّت کا اس امر پر اجماع ہے کہ ’’عقیدۂ ختمِ نبوّت‘‘ پر ایمان ایک ناگُزیر اور لازمی دینی تقاضا ہے، جس کا منکر کافر، مُرتد اور دائرۂ اسلام سے خارج ہے۔ قرآنِ کریم اور احادیثِ نبویؐ میں ختمِ نبوّت کے حوالے سے بے شُمار دلائل موجود ہیں۔ چناںچہ ’’سُورۂ احزاب‘‘ میں پوری وضاحت اور صراحت کے ساتھ یہ اعلان کیا گیا کہ:’’محمد(ﷺ) تمہارے مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں، لیکن وہ اللہ کے پیغمبر اور تمام نبیوں کے خاتم ہیں۔‘‘ (سلسلۂ نبوّت و رسالت کو ختم کرنے والے ہیں)


رسولِ اکرم حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ پر سلسلۂ نبوّت و رسالت کے اختتام کی ایک واضح دلیل یہ بھی ہے کہ آپﷺ قیامت تک پوری انسانیت کے لیے نجات دہندہ اور ہادی و رہبر بناکر بھیجے گئے۔


اس حوالے سے ارشادِ ربّانی ہے:’’اے نبی(ﷺ) ہم نے آپ(ﷺ) کو تمام انسانوں کے لیے بشیر و نذیر بناکر بھیجا ہے۔‘‘ (سُورۂ سبا)جب کہ ’’سُورۂ اعراف‘‘ میں واضح طور پر فرمایا گیا:’’اے نبی(ﷺ) کہہ دیجیے، اے انسانو، میں تم سب کی طرف اللہ کا رسول ہوں۔‘‘جب آپﷺ کی ہمہ گیر شریعت، ختمِ نبوّت اور آخری نبوّت و رسالت کا اظہار قرآنِ کریم کررہا ہے، دین کی تکمیل اور شریعتِ محمدیؐ کی ہمہ گیری اور منشورِ ہدایت ہونے کا اعلان اللہ تعالیٰ خُود فرما رہا ہے، تو پھر کسی اور نبی کے تصوّرکا کیا جواز باقی رہ جاتا ہے؟


دینِ اسلام کا بنیادی ماخذ، اللہ کی رضا کا سرچشمہ اور دوسرا بڑا ذریعہ ہمارے پاس فرامینِ نبویؐ اور احادیثِ مُبارکہ ہیں، جن میں آپﷺ نے واضح انداز میں عقیدۂ ختم نبوّت کی اہمیت کو اُجاگر فرما کر اسے دین کی اساس اور شریعت کی بنیاد قرار دیا ہے، جس پر ایمان لانا اللہ اور اُس کے رسول ﷺ کی اطاعت اور ان پر ایمان کے لیے بنیادی اہمیت کے حامل ہیں۔ اس حوالے سے ارشاداتِ نبویؐ ملاحظہ ہوں:


٭رسولِ اکرم ﷺ کا ارشادِ گرامی ہے:’’بنی اسرائیل کی قیادت و راہ نُمائی اُن کے انبیاءؑ کیا کرتے تھے،جب کوئی نبی وفات پا جاتا تو دوسرا نبی اُس کا جانشین ہوتا، مگر میرے بعد کوئی نبی نہ ہوگا۔‘‘ ٭ایک موقع پر رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’میری اور مجھ سے قبل گُزرے ہُوئے انبیاءؑ کی مثال ایسی ہے، جیسے ایک شخص نے ایک عمارت بنائی،اور خُوب حسِین و جمیل بنائی، مگر اُس کے ایک کونے میں ایک اینٹ کی جگہ چُھوٹی ہُوئی تھی، لوگ اس عمارت کے گرد گُھومتے، اس کی خُوبصورتی پر اظہارِ حیرت کرتے تھے، اور کہتے تھے کہ اس جگہ اینٹ کیوں نہ رکھی گئی؟ تو وہ (نبوت و رسالت کی) آخری اینٹ میں ہُوں، اور میں خاتم النّبیین ہُوں (میری آمد اور بعثت پر نبوّت و رسالت کی عمارت مکمل ہوچکی ہے، اب کوئی جگہ باقی نہیں، جسے پُرکرنے کے لیے کوئی نبی آئے)۔ اسی مضمون کی چار حدیثیں صحیح مسلم، کتاب الفضائل، باب خاتم النّبیین میں ہیں اورآخری حدیث میں یہ الفاظ زائد ہیں، ’’فجئتُ فختمتُ الانبیاء‘‘ پس میں آیا اور میں نے انبیاء کا سلسلہ ختم کردیا۔


علاّمہ سیّد سُلیمان ندویؒ کے الفاظ میں ’’اب نبوّت و رسالت کا اختتام ہوگیا، بابِ نبوّت و رسالت اب بند ہوچکا، دین کی تکمیل ہوچکی، دنیا میں اللہ کا آخری اور ابدی پیغام دعوتِ محمدیؐ کے ذریعے اُمّت تک پہنچ چکا، معمارِ قدرت اپنی عمارت میں اس آخری پتھرکو اپنی جگہ رکھ کر اپنی تعمیر پوری کرچکا، درجہ بدرجہ ستاروں کے طلوع کے بعد وہ خورشیدِ انور طلوع ہُوا، جس کے لیے غروب نہیں، طرح طرح کی بہاروںکے آنے کے بعد باغِ کائنات میں وہ سدا بہار موسم آگیا، جس کے بعد خزاں نہیں۔‘‘


٭رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’مجھے چھ باتوں میں انبیاء پر فضیلت دی گئی ہے۔(1) مجھے جامع و مختصر بات کہنے کی صلاحیت دی گئی۔ (2) مجھے رُعب کے ذریعے نُصرت بخشی گئی۔ (3) میرے لیے اموالِ غنیمت حلال کیے گئے۔ (4) میرے لیے زمین کو مسجد بنادیا گیا اور پاکیزگی کا ذریعہ بھی۔(5) مجھے تمام دنیا کے لیے رسول بناکر بھیجا گیا۔(6) اور میرے اُوپر انبیاءؑ کا سلسلہ ختم کردیا گیا۔‘‘ (مسلم، ترمذی، ابنِ ماجہ)


٭رسولِ اکرم ﷺ کا ارشادِ گرامی ہے: ’’رسالت و نبوّت کا سلسلہ ختم ہوگیا ، میرے بعد اب نہ کوئی رسُول ہے اور نہ نبی۔‘‘ (ترمذی)٭پیغمبرِ آخر و اعظم ﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’میں محمدؐ ہُوں، میں احمدؐ ہُوں، میں ماحی ہُوں کہ میرے ذریعے کُفر مِٹایا جائے گا، میں حاشر ہُوں کہ میرے بعد لوگ حشر میں جمع کیے جائیں گے اور میں عاقب ہُوں، اور عاقب وہ ہے جس کے بعد کوئی نبی نہ ہو۔‘‘ (بخاری و مسلم)


قرآن و سنّت کے ان ارشادات سے یہ واضح ہوتا ہے کہ انسانیت کی ہدایت و راہ نُمائی کے لیے حضرت آدمؑ سے جو سلسلۂ رُشد شروع ہُوا تھا، وہ نبیِ خاتم، حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ پر مکمل ہُوا، آپﷺ کے بعد نبوّت و رسالت کا دروازہ ہمیشہ کے لیے بند ہوگیا۔ شان نبوت و رسالت کا تقاضا یہ ہے کہ ہم ختم نبوت پرکلّی طورپر ایمان لائیں۔یہ ہمارے ایمان کا حصہ ہے کہ آپﷺ اللہ کے آخری نبی ہیں، خاتم الانبیاء اور سیّد المرسلین ہیں۔ نبوّت و رسالت کی آخری اینٹ اور آخری کڑی ہیں۔ یہ شان رسالت اور شان ختم نبوت کا امتیاز اوراس پر ایمان کا لازمی اور بنیادی تقاضا ہے۔


آپﷺ پر دین کی تکمیل کردی گئی۔آپﷺ کی عطا کردہ شریعت رُشد و ہدایت کا ابدی سرچشمہ ہے۔اسلام دینِ کامل اور ابدی ضابطۂ حیات ہے، اس کی اتّباع ہی دین و دنیا میں کامیابی کی ضمانت اور آخرت میں نجات کی کلید ہے۔ رُشد و ہدایت کا سلسلہ اور ایمان سے وابستگی درحقیقت عقیدۂ ختمِ نبوّت پر ایمان سے وابستہ ہے۔ اس پر ایمان بندگی کا لازمی اور ناگُزیر تقاضا ہے، جس کے بغیر دین و ایمان کا تصوّر بھی محال ہے۔


Comments