اسلام کے بنیادی عقائد اور اہمیت


اسلام کے بنیادی عقائد اور اہمیت

(اسلام کے بنیادی عقائد اور اہمیت

اسلام کے بنیادی عقائد


عقیدہ کا معنی


عقائد جمع ہے عقیدہ کی عقیدہ کا لفظ عقد سے نکلا ہے جس کا معنی ہے گرہ باندھا، مضبوط اور پکا کرنا ، عهد و پیمان کرنا، دو چیزوں کے بندھن کو مضبوط کرنا ۔ عقیدہ کا اصطلاحی مفہوم وہ نظریہ یا خیال ہے کہ جس کی صداقت پر صاحب عقیدہ کو پختہ یقین ہو اور اس کی بابت وہ کسی شک و شبہ کو دل میں پیدا نہ ہونے دے۔ قرآن حکیم میں عقیدہ کے معنی میں ایمان کی اصطلاح استعمال کی گئی ہے۔


اسلام میں عقیدہ (ایمان) کی اہمیت


دین اسلام دو اجزاء پر مشتمل ہے ، ایمان اور عمل صالح ، لیکن زیادہ اہمیت اور اولیت ایمیان کو دی گئی ہے۔ قرآن مجید میں ہر جگہ بلا استثناء پہلے ایمان کا ذکر کیا گیا ہے اور اس کے بعد عمل صالح نیک کام) کا سب سے پہلے ایمان لانے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ پانچ بنیادی باتوں پر ایمان لائے بغیر کوئی شخص اسلام میں داخل نہیں ہو سکتا۔ اسلام میں ایمان کے بغیر نیک اعمال کی کوئی


اہمیت و وقعت نہیں ہے۔ ارشاد خداوندی ہے:


مَثَلُ الَّذِينَ كَفَرُوا بِرَبِّهِمُ أَعْمَالُهُمْ كَرَ مَادِي اشْتَدَّتْ بِهِ


الرِّيحُ فِي يَوْمٍ عَاصِفٍ لَا يَقْدِرُونَ مِمَّا كَسَبُوا عَلَى شَيء ذَلِكَ


هُوَ الضَّالُ الْبَعِيدُه


ترجمہ : - جنہوں نے اپنے پروردگار کا انکار کیا اُن کے کاموں کی مثال راکھ کی ہے جس پر والے دن زور کی ہوا چلی ۔ وہ اپنے کاموں سے کوئی فائدہ نہ اٹھا سکیں گے۔ یہی سب


سے بڑی گرا ہی ہے ۔ (ابراہیم۔ (۱۸)


قرآن مجید کی رو سے ایمان ہی نیکی ہے۔


وَالكِنِ الْبِرَّ مَنْ آمَنَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَالْمَلَائِكَةِ وَالْكِتَابِ


والنبيين.


ترجمہ : بلکہ یہ یہ ہے کہ آدمی اللہ اور یوم آخر اور فرشتوں اور کتابوں اور انبیا پرایمان لائے۔ (بقره ۱۷۷)


اسلام کے بنیادی عقائد


قرآن حکیم اور احادیث نبویہ کی رو سے اسلام کے بنیادی عقائد پانچ ہیں :

1- توحید اللہ پر ایمان)


ملائکہ (فرشتوں پر ایمان


رسالت رانبیاء پر ایمان)


کتب ( الہامی کتابوں پر ایمان )


ه آخرت (جزا و سزا پر ایمان)


ان بنیادی عقائد تفصیل اگلے صفحات میں بیان کی جائے گی۔


لفظی معنی


توحید


توحید کا لفظ وحد دورح - د) سے نکلا ہے۔ اس کا لفظی معنی ہے کسی چیز کو ایک کرنا۔ ایک


بنانا، ایک ٹھرانا ۔


اصطلاحی معنی


دین اسلام میں توحید کا مفہوم یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کو اس کی ذات اور صفات اور اس کے افعال میں ایک ماننا اور صرف اسی کو عبادت کے لائق جاننا۔ یعنی یہ پختہ یقین رکھنا وہ وحده لا شَرِیت ہے۔ اس کی ذات بے مثال ہے۔ اس کی کوئی مثل یا نظیر نہیں ۔ اس کی صفات کامل اور بے مثال ہیں۔ وہ اپنے افعال میں کیتا دیگا نہ ہے۔ کوئی اس کا ساجھی ، مدد گار یا شریک نہیں اور صرف وہی عبادت کیے جانے کے لائق ہے۔


توحید کی اقسام


مندرجہ بالا اصطلاحی معنی کی روشنی میں ہم اس کے مفہوم کی وضاحت کے لیے توحید کو چارہ


قسموں میں تقسیم کر سکتے ہیں۔ 1- توحید فی الذات


ذات میں توحید کا مطلب ہے کہ وہ احد ہے ، یگانہ دیکھتا ہے ۔ قُلْ هُوَ اللهُ أَحَدٌ مرن


ہے : الهم الله و


وہی اللہ ہے :


واحد اور کوئی خدا نہیں ہے۔ اس کی ذات ہر قسم کی مثال


اور نظیر سے بالا تر ہے : لیس کمثلہ شیئی وہ لطیف ہے۔ اسے آنکھیں نہیں پاسکتیں۔ وہ


آنکھوں کو پالیتا ہے : لَا تُديكِهُ الاَبْصَارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الأَبْصَارَ - اس کی ذات 

کامل ہے۔ ہر قسم کے عیب نقص اور کمزوری سے پاک رہی اول ہے اور رہی آخر۔


۲- توحيد في الصفات


صفات میں توحید کا مفہوم یہ ہے کہ وہ اپنی صفات میں بھی بے مثال اور بے نظیر ہے۔ وہ رحم کرنے والا ہے لیکن کوئی دوسرا اس جیسا رحم کرنے والا نہیں ہو سکتا۔ وہ اس صفت میں منفرد اور یکتا ہے۔ وہ اپنی ہر صفت میں یکتا ہے ۔ اس کی صفات اس کی ذات کا جزء ہیں ۔ اس کی ذات ہی کی طرح ازلی و ابدی وہ تمام جہانوں کا رب ہے (رب العالمین ، ہر چیز کا پیدا کرنے والا خالق ، زمین وآسمان میں ہر چیز پر اس کی حکومت ہے ( مالك ملك ) ہر چیز پر اسی کا تصرف ہے۔ (عزیز) اسے ہر چیز کا علم ہے علیم، ہر جگہ موجود ہے رحاضر و ناظر، ہر چیز پر قدرت رکھنے والا رقدیں می و قیوم ہے۔ وہ جو چاہتا ہے کر لیتا ہے افعال لِمَا يُرِيدُ ) کوئی اس کو اس کے ارادے کی تکمیل سے باز نہیں رکھ سکتا ، بہت مہربان (رحیم، نہایت رحم کرنے والا ہے۔ (رحمون) بہت بخشنے والا (غفور اور غفار) بہت معاف کرنے والا (عفو، بہت شفقت کرنے والا (رون) اور بہت توبہ قبول کرنے والا (تواب ہے۔ اس کے اچھے اچھے نام ہیں۔ رواله الاسماء الحسنیٰ ، ہم اسے اس کی صفات سے پہچانتے ہیں ۔ ہم اس کی ذات کی حقیقت


معلوم کرنے سے قاصر ہیں ۔


توحيد في الأفعال


اس سے مراد یہ ہے کہ وہ اپنے تمام تر افعال میں یکتا دیگانہ ہے۔ کوئی اس کا مدد گار نہیں۔ کوئی ساتھی نہیں ۔ کائنات میں جس قدر بھی تصرف ہوتا ہے اس کی مرضی واراد سے (اذن) سے ہوتا ہے ۔ اس کی مرضی کے بغیر کوئی پتا تک نہیں کر سکتا۔ جنات اور ملائکہ اور انسان سب اس کی مخلوقات ہیں۔ کوئی بھی اس کا معاون و مدد گار نہیں، بلکہ سب اس کے بندے ہیں۔ وہ سب کا معبود ہے۔ وہ اکیلا ہی اس پوری کائنات کا خالق ہے اور تنہا وہی اس کو قائم رکھے ہوئے ہے اور اس کو چلا رہا ہے۔ وہ جو چاہتا ہے کر لیتا ہے ۔ (إِنَّ اللهَ يَفْعَلُ مَا يَشَاءُ ) وہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے (ان الله عَلَى كُلِّ شَيء قَدِيرٌ) وہی زندگی دیتا ہے اور وہی موت دیتا ہے۔ زندگی اور موت کا خالق بھی


رہی ہے۔


توحيد في العبادات


عبادت کے لائق صرف اللہ تعالیٰ ہے۔ اس کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں۔ اللہ کے سوا


باقی تو سب مخلوقات ہیں۔ اور مخلوق عبادت کے لائق کیونکر ہو سکتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے جن وانسان کو تو پیدا ہی اپنی عبادت کے لیے کیا تھا رَها خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنْسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ اس  لیے حکم دیا کہ اپنے رب کی عبادت کیهَا النَّاسُ اعْبُدُوا رَبَّكُمُ ، اور ہمیں یہ اقرار و کرنا چاہیے کہ ہم صرف تیری ہی عبادت کرتے ہیں ، إِيَّاكَ نَعْبُدُ ، حکم بھی صرف اللہ ہی کا اعلان را


مانا ہے۔ ران الحکم الا لله


توحید کی اہمیت


اسلام کے بنیادی عقائد میں عقیدہ توحید سب سے پہلا اہم اور اصل عقیدہ ہے۔ یہ درخت ہے باتی عقائد اس کی شاخیں ہیں۔ اگر اللہ پر ایمان ہیں تو اللہ کے رسولوں، اللہ کی کتابوں، اللہ کے ملائکہ اور اللہ کی طرف سے جزا و سزا دیئے جانے پر ایمان لانے کا تو سوال ہی پیدا نہ ہو گا۔


قرآن حکیم کی روشنی میں توحید کی اہمیت


قرآن حکیم میں سب سے زیادہ اہمیت عقیدہ توحید کو دی گئی ہے۔ بلکہ اگر یہ پوچھا جائے کہ قرآن حکیم کا


پیغام کیا ہے تو اس کا جواب صرف یہی ہو سکتا ہے : توحید ۔ باقی عقائد اور شریعت سب اس سے متعلق اور اس کی ذیل ہیں۔ قرآن مجید میں سابقہ تمام انبیائے کرام کی دعوت و تبلیغ کا مقصد بھی توحید کا اثبات بتایا گیا ہے۔ ان سب کی تعلیمات کا مرکزی نکتہ توحید ہی تھا۔ اسلام میں داخل ہونے کی سب سے پہلی اور اہم شرط بھی توحید پر ایمان لانا ہے۔ توحید پر ایمان لائے بغیر کوئی شخص مسلمان نہیں


ہو سکتا۔ قرآن حکیم میں توحید پر ایمان لانے پر بے حد زور دیا گیا ہے۔ مثلاً ارشاد ربانی ہے : کہ دیجیے کہ وہ اللہ ایک ہے۔


قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ


وَإِلَهُكُمُ اللَّهُ وَاحِدٌ لا إِلَهَ إِلَّا هُوَ


اور تمہارا معبود ایک معبود ہے۔ اس کے سوا کوئی مجود نہیں۔ اللہ ہی تو ایک معبود ہے۔ بے شک تمہارا معبود یقینا ایک ہے۔ اور انہیں دینی عیسائیوں کو ہم ایک معبود کی عبادت کرنے کا ہی حکم دیا گیا تھا۔ اس کے سوا کوئی معبود نہیں۔


إِنَّمَا اللَّهُ إِلَهُ وَاحِدٌ


إِنَّ الهَكُمْ لَوَاحِدٌ


. وَمَا أَمِرُوا إِلَّا لِيَعْبُدُوا إِلهَا وَاحِدًا لَا إِلَهَ الأَهُوَ


احادیث مبارکہ کی روشنی میں توحید کی اہمیت


نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث مبارکہ میں بھی توحید کی اہمیت کو اجاگر کیا گیا ہے۔ آپؐ نے توحید کو ہی اسلام کی بنیاد قرار دیا ہے۔ چنانچہ آپ کی ایک مشہور حدیث میں اسلام کے جو پانچ ارکان بیان کیے گئے ہیں ان میں سے پہلا رکن توحید ورسالت کی شہادت دینا ہے ۔ آپ نے لا اله 

الله


الا اللہ کی شہادت کو جنت کی کنجی قرار دیا ہے۔ ایک حدیث میں اس طرح ارشاد ہوا ہے کہ جس شخص نے یہ گواہی دی کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں ، اللہ نے


اس شخص پر دوزخ کی آگ حرام کر دی ۔


قرآن حکیم اور احادیث مبارکہ مطالعے سے توحید کی اہمیت سامنے آتی ہے اس کا


خلاصہ کچھ اس طرح ہے : ا توحید پر ایمان لانا اسلام میں داخل ہونے کے لیے سب سے پہلی اور لازمی شرط ہے۔ اس کے بغیر باتی بنیادی عقائد اور اعمال صالحہ کی کوئی وقعت نہیں۔


- توحید اسلام کا اصل پیغام ہے۔ توحید پر ایمان اُخروی نجات کے لیے ضروری ہے ۔ اس پر ایمان لائے بغیر آخرت میں نجات


حاصل نہ ہوگی۔ تمام سابقہ انبیاء کی تعلیمات کا محور توحید تھا۔ ه توحید جنت میں داخل ہونے کی کنجی ہے۔


Comments