- Get link
- X
- Other Apps
انسان کس قدر عاجز ہے کہ ہر لمحہ اور صبح و شام جس چیز کا ضرورت مند ہے ، اسے بھی وجود میں نہیں لاسکتا ، نہ وہ چاول اور گیہوں کا ایک دانہ پیدا کر سکتا ہے، نہ اپنے لئے پانی کا کوئی قطرہ وجود میں لاسکتا ہے ، نہ وہ ہوا اور آکسیجن کی تخلیق کر سکتا ہے، جس کے بغیر چند منٹ بھی اس کی زندگی باقی نہیں رہ سکتی ! اور خدا کس قدر قادر اور عظیم ہے ، جس نے اتنی بڑی کائنات ہمارے لئے بچھائی ہے اور ہر لمحہ لاکھوں پھل پھول ہیں ، جنہیں وہ پیدا کرتا ہے، پھر وہ مہربان اور رحم دل بھی کسی قدر ہے کہ اس نے سورج کا ایسا میں چراغ جلا رکھا ہے، جس کی روشنی ہر آنگن میں پہنچتی عام ہے اور جس کے حکم سے گھٹائیں رحمت یہ امان ہو کر یہ ہر کھیت کی پیاس بجھاتی ہیں ، یہ آنگن کسی مسلمان کا ہو، یا کسی کافر کا، اور یہ کھیت اللہ کے فرماں برداروں چاہتا کے ہوں یا نا فرمانوں کے ...!
جو خدا اس قدر قادر مطلق ہے، جس کے خزانہ قدرت میں نعمتوں کی کوئی کمی نہیں ، پھر جو اتنا سخی اور داتا ہے کہ دنیا میں اچھے برے کا فرق کئے بغیر سب کو دیتا ہے ، خوب دیتا ہے اور دامن بھر بھر دیتا ہے ، اس سے بڑھ کر کون اس لائق ہو سکتا ہے کہ عاجز و کمزور اور ضرورت و حاجت مندی کا پتلا انسان اس کے سامنے ہاتھ پھیلائے اور اپنی ضرورتوں کے کشکول
اس کے سامنے کھولے کہ اللہ ! اپنے ایک فقیر بے نوا
اور گدائے بے آسرا پر نگاہ کرم فرما اور اپنے جو دوسخا اور داد و دہش کے دربار سے اس کے عاجز ہاتھوں کو واپس نہ کر اسی ادائے بندگی کا نام ” دعا ہے۔ دعا کو اسلام میں بڑی اہمیت حاصل ہے ، اللہ تعالی نے اپنی کتاب میں اہل ایمان سے فرمایا ہے کہ وہ اللہ سے مانگے اور اس سے دُعا کرے ۔ (سورہ غافر فری ۱۴ : ، ۶۵) اللہ تعالیٰ نے یہ بھی فرمایا کہ تم مجھ سے مانگو تو میں تمہاری دعا قبول کروں گا ۔ (سورہ غافر : ۶۰) اپنے نیک بندوں کی تعریف کرتے ہوئے اللہ نے فرمایا : ان کے پہلو بستر سے الگ ہوتے ہیں اور خوف وطمع کے ساتھ اپنے پروردگار کو پکارتے ہیں۔ (سورۃ السجدة ١٦ :) ایک موقع پر اللہ تعالی نے فرمایا : اللہ سے اس کے فضل کے طلب گار رہو
( سورة النساء ٣٢ :)
رسول اللہ صلی ہم نے جو عبدیت اور بندگی کا نمونہ تھے ، دُعا کرنے کی خوب ترغیب دی ہے ، آپ سلیم نے فرمایا : دعا در اصل عبادت ہے۔ (ترمذی ) ایک اور روایت میں آپ سال بی سیم نے دعا کو عبادت کی روح اور اس کا مغز قرار دیا۔ (جامع ترندی ۳۳۷۱ : مخلوق کا مزاج یہ ہے کہ فی اس سے کچھ مانگو تو ناگواری ہوتی ہے لیکن اللہ تعالی
کو دعا سے زیادہ کوئی چیز پسند نہیں۔ (ترمذی، باب ما جاء في فضل الدعاء ، ۳۳۷۰ :)
حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ آپ صلی کی اہم نے فرمایا : جو شخص اللہ سے نہیں مانگتا ، اللہ اس پر ناراض ہوتا ہے۔ (ترمذی، ابواب الدعوات ، باب منه، ۳۳۷۳ : رسول اللہ صلی نما السلام نے ارشاد فرمایا جو مصیبتیں آچکی ہیں ، دُعا ان میں بھی نافع ہے اور جو آنے والی ہیں دُعا ان سے بھی بچاتی ہے، اس لئے
اللہ کے بندو ! تم پر دُعا کا اہتمام ضروری ہے ۔ )
مشکوة ۲۲۳۴ :)
حضرت عبد اللہ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ملی ایم نے فرمایا : تم میں سے جس کے لئے دُعاء کا دروازہ کھل گیا ، اس کے لئے رحمت کے دروازے وا ہو گئے اور انسان اللہ تعالی سے جو کچھ مانگتا ہے ، اس
۲۲۳۹ میں عافیت سے بہتر کچھ اور نہیں ۔ (مشکوۃ :) :) عام طور پر لوگ مصیبت کے وقت ہی دُعا کرتے ہیں ، یہ بندہ کی خود غرضی کی بات ہے۔ حضرت ابو ہریرہ
سے روایت ہے کہ آپ صلی اسلام نے فرمایا : جو چاہتا ہو کہ مشکل وقتوں میں اس کی دُعا قبول کی جائے اسے چاہئے کہ بہتر وقت میں خوب دعاء کیا کرے ، ( ترندی ، باب ما جاء أن دعوة المسلم
مستجابة ، ۳۳۸۲ :)
دعا چوں کہ خود عبادت ہے، اس لئے وہ کبھی رائیگاں
نہیں جاتی ، آپ سلی یا ایلیم نے فرمایا : یا تو اس کی دعا اسی طرح قبول کر لی جاتی ہے، یا آخرت کے اجر کی صورت میں محفوظ ہو جاتی ہے، یا اسی مطلوب کے بقدر مصیبت اس سے دور کر دی جاتی ہے ، ( مشکوۃ
عن ابی سعید خدری ۲۲۵۹ :) چنانچہ حضرت سلمان فارسی سے روایت ہے کہ آپ
صلی اسلام نے فرمایا : تمہارا پروردگار بہت حیاء والا اور کریم ہے، جب بندہ ہاتھ پھیلاتا ہے تو اس سے حیاء
فرماتا ہے، کہ اس کے ہاتھوں کو خالی واپس کر دے۔ ( مشکوة ۲۲۴۴ :) البتہ دعا کے معاملہ میں عجلت اور
بے صبری نہیں ہونی چاہئے ، رسول اللہ صلی لی اسلیم نے ارشاد فرمایا کہ اگر انسان گناہ یا قطع رحمی کی دعا نہ کرے تو اس کی دُعا قبول ہوتی ہے ، بشرطیکہ جلد
بازی سے کام نہ لے ، دریافت کیا گیا کہ جلد بازی
سے کیا مراد ہے؟ آپ سلیم نے فرمایا : یوں کہے میں نے بہت دُعا کی لیکن لگتا ہے میری دعاء قبول نہیں ہوئی، چنانچہ نا امید ہو کر دعا کرنا چھوڑ دے، ( مشكوة عن ابی ہریرہ ۲۳۲۷ :) اس لئے آپ سلام سے ارشاد فرمایا : خوشحالی اور کشادگی کا انتظار
بھی افضل ترین عبادت ہے : " وافضل العبادة
انتظار الفرج - ( مشکوۃ ۲۲۳۷ :)
رسول اللہ صلی پیام کی حیات طیبہ کو دیکھئے تو صبح سے
شام تک دُعاؤں کا معمول ہے ، آپ مسلی ہم نے فرمایا کہ اس طرح دُعا کرو کہ دل میں یقین ہو کہ اللہ اسے ضرور ہی قبول فرمائے گا ۔ ( مجمع الزوائد ۱۰ (۱۴۸) کیوں کہ جب تک دعا کے قبول ہونے کا یقین نہ ہو ، وہ کیفیت وانابت پیدا نہیں ہو سکتی ، جو دُعا کے لئے مطلوب ہے ، پھر یہ بھی ضروری ہے کہ دُعا
کے وقت قلب اللہ تعالی کی طرف متوجہ ہو، دل غافل اور لا پروا ہو اور زبان پر دُعا کے کلمات ہوں، تو یہ دُعاء مقبول نہیں ۔ حضرت ابوہریرہ سے مروی ہے ، آپ -
صلی تم سے ارشاد فرمایا : اللہ غافل اور بے توجہ دل - کی دعا قبول نہیں فرماتا ۔ (مشکوۃ ۲۲۴۱ :) ارشاد = رب العزت ہے، دُعا کرنے والے پر فروتنی کی ۔ کیفیت ہونی چاہئے۔ (سورۃ الاعراف ۵۵ :) قلب کے ساتھ ساتھ جسمانی اعتبار سے بھی دعا ۔ کرنے والے کو بندگی اور عجز و نیاز کامظہر ہونا چاہئے ۔
چنانچہ آپ صلی سلیم نے فرمایا : جب اللہ تعالی = سے مانگو تو ہتھیلیوں کی طرف سے نہ کہ پشت کی =
جانب سے یعنی ہتھیلیاں پھیلا کر رکھو نہ کہ پشت اور 5 پھر اپنی ہتھیلیوں کو اپنے چہرہ پر پھیر لو ۔ ( مشکوۃ عن - ابن عباس ۲۲۴۳ : حضرت عمرؓ سے روایت | ہے ، دُعا کا طریقہ یہ ہے کہ ہاتھ مونڈھوں کے 1
مقابل یا ان کے قریب ہو۔ ( ابو داؤد : باب = الدعاء، حدیث نمبر ۱۴۸۹ : گویا ایک بھکاری ہے ۔ جو اپنا ہاتھ پھیلایا ہوا ہے ۔ رسول اللہ صلی السلام - کا معمول مبارک بھی یہی تھا ، ( مشکوۃ ۲۲۵۴ :) - حضرت عبد اللہ بن عمر سے مروی ہے کہ ہاتھ سینوں - کے مقابل ہونا چاہئے ، حضور سالی کہ ہم اس سے زیادہ ۔
ہاتھ نہ اُٹھاتے تھے۔ (مشکوۃ ۲۲۵۷ :) آپ سالی میں پیہم نے دعا کے کلمات کے بارے میں بھی ۔ آداب بتائے ۔ حضرت عبد اللہ بن مسعود سے مروی =
ہے کہ دُعاء سے پہلے اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا بیان کرنی - چاہئے اور آپ سالی یتیم پر درود ، پھر دُعا کرنی ۔ چاہئے ( مجمع الزوائد ۱۰ : ۱۵۵) حضرت فضالہ بن عبید سے مروی ہے کہ ہم لوگ حضور صلی نام کے - پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ ایک صاحب آئے ، نماز - پڑھی، پھر دُعا کرنے لگے ! اللہ ! مجھے معاف فرما، آپ سلیم نے فرمایا : اے نماز پڑھنے والے تم - نے جلد بازی کی ، جب نماز پڑھو تو بیٹھو، پھر اللہ کی حمد - کرو، پھر مجھ پر درود بھیجو ، اس کے بعد دُعا کرو۔ چنانچہ اس نے اسی طرح دعاء کی تو آپ سلیم نے = فرمایا کہ دعا کر و قبول کی جائے گی۔ ( مجمع الزوائد : - ۱۵۶/۱۰) دعا کرتے ہوئے آواز پست اور آہستہ ہے ہونی چاہئے ، کیوں کہ اللہ تعالی نے دُعا کے آداب = میں یہ بات فرمائی ہے کہ دُعا میں آواز پست ہونی چاہئے (سورۃ الاعراف (۵۵ : کیوں کہ پست آواز - میں ریا اور دکھاوے کا اندیشہ کم ہے ، آدمی اپنی ۔ ضرورت کے مطابق دُعا کر سکتا ہے ، اس سے رقت - کی کیفیت پیدا ہوتی ہے، آج کل اجتماعی طور پر دعا کا ۔ رواج بڑھ گیا ہے ، اس میں بعض اوقات دُعاء رسم = دعا بن جاتی ہے ، رقت اور خشیت کی کیفیت پیدا ہے نہیں ہوتی اور چوں کہ ہر شخص کی ضرورتیں الگ الگ ہوتی ہیں ، اس لئے انسان اپنی ضرورت کے مطابق - اللہ سے سوال نہیں کر پاتا ، دُعا کے آداب میں یہ بھی = ہے کہ دُعا خواہ کسی کے لئے کرنی ہو، دُعا کا آغاز اپنی 1 ذات سے کرے۔ (مجمع الزوائد ۱۰ : ۱۵۲، باب - دعاء المرء لنفہ ) کیوں کہ اس سے عجز اور اللہ کے 1
سامنے احتیاج کا اظہار ہوتا ہے، اور دراصل یہی -
کیفیت دُعاء کرنے والے میں مطلوب ہے۔
کچھ خاص اوقات ہیں، جن میں دُعا مقبول ہوتی ہے
رات کے آخری اور تہائی حصہ میں یہاں تک کہ صبح
طلوع ہو جائے ۔ ( مسند احمد عن ابن مسعود
۳۱۰/۷) جہاد میں صفوں کے آراستہ ہونے کے وقت ، بارش ہونے کے وقت نماز کی اقامت کے وقت ( ترمذی عن ابي هريرة، حدیث نمبر ۴۲۶۸:) اس کے علاوہ فرض نمازوں کے بعد ، شب قدر اور بعض خاص راتیں دُعا کی قبولیت کے خاص مواقع ہیں ۔ اسی طرح کچھ لوگ ہیں ، جن کی دعاؤں کو آپ سلیم نے خاص طور پر مقبول قرار دیا ہے ، ان ہی میں مظلوم ہے، گو وہ اپنے اعمال کے اعتبار سے براہی کیوں نہ ہو، روزے دار، تا آں کہ افطار کرلے اور مسافر ، تا آں کہ واپس آجائے ۔ ) مجمع الزوائد ۱۰ : ۱۵۲) ، امام عادل کی دعا اور باپ کی دعا اپنی اولاد کے حق میں مقبول ہے ۔ ) مشکوة عن ابی ہریرہ ۲۲۴۸ : ۲۲۲۹۰) کسی شخص کی غیر موجود مسلمان بھائی کے بارے میں دُعا بھی مقبول ہوتی ہے اور متعدد روایتوں میں اس کا ذکر ہے ، ( ترمذی عن عبد اللہ بن عمر) حاجی کی دُعاء گھر واپسی تک اور مجاہد کی دُعا جہاد سے فارغ ہونے تک بھی مستجاب دعاؤں میں ہے۔ (مشکوۃ ۲۲۶۰ :) جیسے ان لوگوں کی دعا مقبول ہوتی ہے اور اس میں شامل ہونے کی کوشش کرنی چاہئے ، ویسے ہی ان کی بد دعا اور اللہ کے درمیان کوئی پردہ نہیں ہے ، اس طرح حضور ملی پیہم نے فرمایا کہ اولاد اور مال پر بد دعا نہ کرو کہ کہیں وہ وقت دعا کی مقبولیت کا ہو اور یہی دعاء عنداللہ مقبول ہو جائے ۔ (مسلم عن جابر ) بعض لوگ خود اپنے لئے دعا کا اہتمام نہیں کرتے اور لوگوں سے خواہش کرتے ہیں کہ میرے لئے دُعا کیجئے یہ صیح نہیں ، اپنے لئے خود بھی دُعا کرنی چاہئے ، کیوں کہ انسان خود اپنے لئے جس رفت اور سوز کے ساتھ دعا کر سکتا ہے، ظاہر ہے کوئی اور نہیں کر سکتا ، کیوں کہ انسان کی اپنی دُعا میں اس کا غم چوں کہ خون جگر کی طرح شامل ہوتا ہے اور اللہ کے یہاں اسی جذبہ دروں کی قدر و قیمت ہے، لیکن اگر کسی سے دُعا کی درخواست کی جائے تو اس میں بھی مضائقہ نہیں حضرت عمر راوی ہیں کہ میں نے رسول اللہ سی نا کہ سلام سے عمرے کی اجازت چاہی ، آپ مالی سلیم نے اجازت دی اور فرمایا : مجھے بھی اپنی دعا میں شریک رکھنا اور بھول نہ جانا۔ حضرت عمرؓ کہتے ہیں کہ یہ حضور صلی ال ایام کا ایسا کلمہ ہے کہ اگر اس کے بجائے پوری دنیا بھی حاصل ہو جاتی تو اس سے بڑھ کر خوشی نہ ہوتی ( ترمذی عن عمر ، حدیث ۳۵۶۲ : ) بعض لوگوں کو خیال ہوتا ہے ، کہ جو اہم چیز ہو ، اس کی دُعا کی جائے ، معمولی چیز کیا اللہ سے مانگی جائے ، یہ نا سمجھی کی بات ہے ، اصل میں انسان چھوٹی سے چھوٹی اور بڑی سے بڑی تمام ضرورتوں میں اللہ ہی کا محتاج ہے ، اس
لئے ہر چھوٹی ، بڑی ضرورت اللہ ہی سے مانگنی چاہئے ،
نہ کہ کسی اور سے ، کیوں کہ جیسے اللہ قادر مطلق ہے،
ا ویسے ہی انسان محتاج مطلق ۔ چنانچہ حضرت انس
سے روایت ہے کہ آپ سنی اسلام نے فرمایا : ہر
ضرورت اللہ ہی سے مانگنی چاہئے ، یہاں تک کہ
جوتے کا تسمہ ٹوٹ جائے تو وہ بھی اللہ ہی سے مانگے
ں اور ایک روایت میں ہے کہ نمک کے لئے بھی اللہ ہی
سے طلب گار ہو، ( ترمذی عن انس ، حدیث (۳۶۰۴)
اور کیوں نہ ہو کہ انسان ان میں سے کسی چیز کا خالق
نہیں ، وہ محض اللہ کی تخلیق سے نفع اٹھاتا ہے، اس لئے
قطرہ قطرہ اور ذرہ ذرہ میں اپنے رب کا محتاج ہے۔
Comments
Post a Comment