عقیدہ آخرت انسانی معاشرہ کو انسانیت افروز بنانے کا اہم ذریعہ ہے


عقیدہ آخرت کی اہمیت ثمرات


آخرت پر ایمان رکھنا اسلام کی نہایت اہم تعلیم ہے۔ قرآن مجید میں اس کی اہمیت پر زور دیا گیا ہے اگر آخرت پر ایمان نہ ہو تو انسان خود فرضی اور نفس پرستی میں ڈوب کر تہذیب و شرافت اور عدل و انصاف کے تقاضے کو یکسر بھول جائے۔ عقیدہ آخرت انسانی معاشرہ کو انسانیت افروز بنانے کا اہم ذریعہ ہے۔ کیوں کہ اس سے انسان کے دل میں نیکی پر جزا اور بدی پر سزا کا احساس ابھرتا ہے۔ جو اعمال میں صالحیت پیدا کر دیتا ہے۔ اس عقیدے پر ایمان اور تیقن کی اصل وجہ انسانی اخلاق کی تکمیل و تحسین ہے۔ اسلام میں عقیدہ آخرت کے انسانی زندگی پر بڑے اہم اثرات مرتب ہوتے

ہیں

 جن میں سے چند یہ ہیں:


ا۔ نیکی سے رغبت اور بدی سے نفرت: 

جو شخص اسلام میں عقیدہ آخرت پر یقین رکھتا ہے وہ جانتا ہے، اس کے تمام اعمال ظاہر ہوں یا پوشیدہ اس کے اعمال نامہ میں محفوظ کر لئے جاتے ہیں۔ آخرت میں میں نامہ اعمال اللہ تعالی کی بارگاہ میں پیش ہوگا، منصف حقیقی فیصلہ فرمائے گا۔ ان اعمال کا وزن کیا جائے گا۔ ایک پلڑے میں نیک اعمال اور دوسرے میں برے اعمال ہوں گے۔ اگر نیکی کا پلڑا بھاری ہوا تو کامیابی حاصل ہوگی۔ جنت میں ٹھکانہ نصیب ہوگا اور اگر گناہ زیادہ ہوئے تو دوذخ میں جلنا ہوگا 


بہادری اور سرفروشی :

ہمیشہ کے لئے مٹ

جانے کا ڈر انسان کو کمزور بنا دیتا ہے مگر جب دل میں یہ یقین موجود ہو کے اس دنیا کی زندگی چند روزہ ہے۔

پائیدار اور دائمی زندگی آخرت کی ہے تو انسان نڈر ہو جاتا 


ہے۔ وہ اللہ تعالی کی راہ میں جان قربان کرنے سے بھی نہیں کتراتا۔ وہ جانتا ہے کہ راہ حق میں جان کا نذرانہ کے پیش کر دینے سے وہ ہمیشہ کے لئے فنانہیں ہو جائے گا۔ بلکہ آخرت کی کامیاب اور پر مست زندگی حاصل کرے گا۔ چنانچہ یہ عقید و مومن کے دل میں جذبہ - سرفروشی پیدا کر کے معاشرے میں عمل اور نیکی کے


پھیلنے کی راہ ہموار کر دیتا ہے۔


صبر و تحمل:

 عقیدہ آخرت سے انسان کے 

دل میں صبر و تحمل کا جذبہ پیدا ہوتا ہے۔ وہ جانتا ہے حق کی خاطر جو بھی تکلیف برداشت کی جائے گی ، اس کا 


اللہ تعالی کے ہاں اجر ملے گا جہاں سے آخر پر نظر رکھتے 

ہوئے وہ ہر مصیبت کا صبر و تحمل سے مقابلہ کرتا ہے۔ 

مال خرچ کرنے کا جذبہ:

 عقیدہ آخرت انسان کے دل میں یہ جذبہ پیدا کرتا ہے حقیقی زندگی 

صرف آخرت کی زندگی ہے۔ لہذا اسی دولت سے لگاؤ رکھنا چاہیے، جو اس زندگی کو کامیاب بنائے۔ چنانچہ مؤمن جتنا بھی دولت مند ہو جاتا ہے اس قدر زیادہ متفاوت اور فیاضی کرتا ہے کیوں کہ وہ جانتا ہے۔ اللہ تعالی کی راہ میں خرچ کرنے سے اس کی آخرت کی

زندگی سنور جائے گی۔


احساس ذمہ داری:

 آخر پر ایمان رکھنے سے


انسان میں احساس ذمہ داری پیدا ہو جاتا ہے۔ کیوں کہ وہ جانتا ہے کہ اپنے فرائض میں کوتاہی کرنا جرم ہے۔ جس پر آخرت میں سزا ملے گی۔ لہذا پوری ذمہ داری سے اپنے فرائض ادا کئے جائیں۔ آہستہ آہستہ یہ احساس اس قدر پختہ ہو جاتا ہے، انسان اپنے ہر فرض پوری دیانت داری سے سر انجام دینے لگتا ہے خواہ اس کا تعلق بندوں کے حقوق سے ہو یا اللہ تعالی کے حقوق ہے۔ یہی احساس ذمہ داری مسلمان کا طرہ امتیاز ہے۔ واضح ہوا کہ عقیدہ آخرت کا تصور اگر حقیقی طور پر ذہن میں راسخ ہوا تو اس سے سیرت انسانی تقوی کے زیور سے آراستہ ہوتی۔ اللہ تعالی


ہمیں فکر آخرت نصیب فرمائے۔ آمین


Comments